Jump to content

برسات کی بہاریں

From Wikisource
برسات کی بہاریں
by نظیر اکبر آبادی
316064برسات کی بہاریںنظیر اکبر آبادی

ہیں اس ہوا میں کیا کیا برسات کی بہاریں
سبزوں کی لہلہاہٹ باغات کی بہاریں
بوندوں کی جھمجھماوٹ قطرات کی بہاریں
ہر بات کے تماشے ہر گھات کی بہاریں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

بادل ہوا کے اوپر ہو مست چھا رہے ہیں
جھڑیوں کی مستیوں سے دھومیں مچا رہے ہیں
پڑتے ہیں پانی ہر جا جل تھل بنا رہے ہیں
گلزار بھیگتے ہیں سبزے نہا رہے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

مارے ہیں موج ڈابر دریا ڈونڈ رہے ہیں
مور و پپہیے کوئل کیا کیا رمنڈ رہے ہیں
جھڑ کر رہی ہیں جھڑیاں نالے امنڈ رہے ہیں
برسے ہے منہ جھڑا جھڑ بادل گھمنڈ رہے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

جنگل سب اپنے تن پر ہریالی سج رہے ہیں
گل پھول جھاڑ بوٹے کر اپنی دھج رہے ہیں
بجلی چمک رہی ہے بادل گرج رہے ہیں
اللہ کے نقارے نوبت کے بج رہے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

بادل لگا ٹکوریں نوبت کی گت لگاویں
جھینگر جھنگار اپنی سرنائیاں بجاویں
کر شور مور بگلے جھڑیوں کا منہ بلاویں
پی پی کریں پپیہے مینڈک ملاریں گاویں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

ہر جا بچھا رہا ہے سبزہ ہرے بچھونے
قدرت کے بچھ رہے ہیں ہر جا ہرے بچھونے
جنگلوں میں ہو رہے ہیں پیدا ہرے بچھونے
بچھوا دیے ہیں حق نے کیا کیا ہرے بچھونے
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

سبزوں کی لہلہاہٹ کچھ ابر کی سیاہی
اور چھا رہی گھٹائیں سرخ اور سفید کاہی
سب بھیگتے ہیں گھر گھر لے ماہ تا بماہی
یہ رنگ کون رنگے تیرے سوا الٰہی
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

کیا کیا رکھے ہیں یا رب سامان تیری قدرت
بدلے ہے رنگ کیا کیا ہر آن تیری قدرت
سب مست ہو رہے پہچان تیری قدرت
تیتر پکارتے ہیں سبحان تیری قدرت
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

کوئل کی کوک میں بھی تیرا ہی نام ہے گا
اور مور کی زٹل میں تیرا پیام ہے گا
یہ رنگ سو مزے کا جو صبح و شام ہے گا
یہ اور کا نہیں ہے تیرا ہی کام ہے گا
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

بولیں بئے بٹیریں قمری پکارے کو کو
پی پی کرے پپیہا بگلے پکاریں تو تو
کیا حدحدوں کی حق حق کیا فاختوں کی ہو ہو
سب رٹ رہے ہیں تجھ کو کیا پنکھ کیا پکھیرو
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی ماریں

جو مست ہوں ادھر کے کر شور ناچتے ہیں
پیارے کا نام لے کر کیا زور ناچتے ہیں
بادل ہوا سے کر کر گھنگھور ناچتے ہیں
مینڈک اچھل رہے ہیں اور مور ناچتے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

پھولوں کی سیج اوپر سوتے ہیں کتنے بن بن
سو ہیں گلابی جوڑے پھولوں کے ہار ابرن
کتنوں کے گھر ہے کھانا سونا لگے ہے آنگن
کونے میں پڑ رہی ہیں سر منہ لپیٹ سوگن
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

جو خوش ہیں وہ خوشی میں کاٹے ہیں رات ساری
جو غم میں ہیں انہوں پر گزرے ہے رات بھاری
سینوں سے لگ رہی ہیں جو ہیں پیا کی پیاری
چھاتی پھٹے ہے ان کی جو ہیں برہ کی ماری
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

جو وصل میں ہیں ان کے جوڑے مہک رہے ہیں
جھولوں میں جھولتے ہیں گہنے جھمک رہے ہیں
جو دکھ میں ہیں سو ان کے سینے پھڑک رہے ہیں
آہیں نکل رہی ہیں آنسو ٹپک رہے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

اب برہنوں کے اوپر ہے سخت بے قراری
ہر بوند مارتی ہے سینے اپر کٹاری
بدلی کی دیکھ صورت کہتی ہیں باری باری
ہے ہے نہ لی پیا نے اب کے بھی سدھ ہماری
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

جب کوئل اپنی ان کو آواز ہے سناتی
سنتے ہی غم کو مارے چھاتی ہے امنڈی آتی
پی پی کی دھن کو سن کر بے کل ہیں کہتی جاتی
مت بول اے پپیہے پھٹتی ہے میری چھاتی
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

ہے جن کی سیج سونی اور خالی چارپائی
رو رو انہوں نے ہر دم یہ بات ہے سنائی
پردیسی نے ہماری اب کے بھی سدھ بھلائی
اب کے بھی چھاؤنی جا پردیس میں ہے چھائی
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

کتنوں نے اپنی غم سے اب ہے یہ گت بنائی
میلے کچیلے کپڑے آنکھیں بھی ڈبڈبائی
نے گھر میں جھولا ڈالا نے اوڑھنی رنگائی
پھوٹا پڑا ہے چولہا ٹوٹی پڑی کڑھائی
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

گاتی ہے گیت کوئی جھولے پہ کر کے پھیرا
مارو جی آج کیجیے یاں رین کا بسیرا
ہے خوش کسی کو آ کر ہے درد و غم نے گھیرا
منہ زرد بال بکھرے اور آنکھوں میں اندھیرا
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

اور جن کو اب مہیا حسنوں کی ڈھیریاں ہیں
سرخ اور سنہرے کپڑے عشرت کی گھیریاں ہیں
محبوب دلبروں کی زلفیں بکھیریاں ہیں
جگنو چمک رہے ہیں راتیں اندھیریاں ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

کتنے تو بھنگ پی پی کپڑے بھگو رہے ہیں
باہیں گلوں میں ڈالے جھولوں میں سو رہے ہیں
کتنے برہ کے مارے سدھ اپنی کھو رہے ہیں
جھولے کی دیکھ صورت ہر آن رو رہے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

بیٹھے ہیں کتنے خوش ہو اونچے چھوا کے بنگلے
پیتے ہیں مے کے پیالے اور دیکھتے ہیں جنگلے
کتنے پھرے ہیں باہر خوباں کو اپنے سنگ لے
سب شاد ہو رہے ہیں عمدہ غریب کنگلے
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

کتنوں کو محلوں اندر ہے عیش کا نظارا
یا سائبان ستھرا یا بانس کا اسارا
کرتا ہے سیر کوئی کوٹھے کا لے سہارا
مفلس بھی کر رہا ہے پولے تلے گزارا
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

چھت گرنے کا کسی جا غل شور ہو رہا ہے
دیوار کا بھی دھڑکا کچھ ہوش کھو رہا ہے
در در حویلی والا ہر آن رو رہا ہے
مفلس سو جھوپڑے میں دل شاد سو رہا ہے
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

مدت سے ہو رہا ہے جن کا مکاں پرانا
اٹھ کے ہے ان کو مینہ میں ہر آن چھت پہ جانا
کوئی پکارتا ہے ٹک موری کھول آنا
کوئی کہے ہے چل بھی کیوں ہو گیا دوانا
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

کوئی پکارتا ہے لو یہ مکان ٹپکا
گرتی ہے چھت کی مٹی اور سائبان ٹپکا
چھلنی ہوئی اٹاری کوٹھا ندان ٹپکا
باقی تھا اک اسارا سو وہ بھی آن ٹپکا
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

اونچا مکان جس کا ہے پچ کھنا سوایا
اوپر کا کھن ٹپک کر جب پانی نیچے آیا
اس نے تو اپنے گھر میں ہے شور غل مچایا
مفلس پکارتے ہیں جانے ہمارا
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

سبزوں پہ بیر بھوٹی ٹیلوں اپر دھتورے
پسو سے مچھروں سے روئے کوئی بسورے
بچھو کسی کو کاٹے کیڑا کسی کو گھورے
آنگن میں کنسلائی کونوں میں کھن کھجورے
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

پھنسی کسی کے تن میں سر پر کسی کے پھوڑے
چھاتی یہ گرمی دانے اور پیٹھ میں دودڑے
کھا پوریاں کسی کو ہیں لگ رہے مروڑے
آتے ہیں دست جیسے دوڑیں عراقی گھوڑے
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

پتلی جہاں کسی نے دال اور کڑھی پکائی
مکھی نے ووہیں بولی آ اونٹ کی بلائی
کوئی پکارتا ہے کیوں خیر تو ہے بھائی
ایسے جو کھانستے ہو کیا کالی مرچ کھائی
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

جس گل بدن کے تن میں پوشاک سوسنی ہے
سو وہ پری تو خاصی کالی گھٹا بنی ہے
اور جس پہ سرخ جوڑا یا اودی اوڑھنی ہے
اس پر تو سب گھلاوٹ برسات کی چھنی ہے
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

بدنوں میں کھب رہے ہیں خوبوں کے لال جوڑے
جھمکیں دکھا رہے ہیں پریوں کے لال جوڑے
لہریں بنا رہے ہیں لڑکوں کے لال جوڑے
آنکھوں میں چبھ رہے ہیں پیاروں کے لال جوڑے
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

اور جس صنم کے تن میں جوڑا ہے زعفرانی
گلنار یا گلابی یا زرد سرخ دھانی
کچھ حسن کی چڑھائی اور کچھ نئی جوانی
جھولوں میں جھولتے ہیں اوپر پڑے ہے پانی
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

کوئی تو جھولنے میں جھولے کی ڈور چھوڑے
یا ساتھیوں میں اپنے پاؤں سے پاؤں جوڑے
بادل کھڑے ہیں سر پر برسے ہیں تھوڑے تھوڑے
بوندوں میں بھیگتے ہیں لال اور گلابی جوڑے
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

کتنوں کو ہو رہی ہے اس عیش کی نشانی
سوتے ہیں ساتھ جس کے کہتی ہے وہ سیانی
اس وقت تم نہ جاؤ اے میرے یار جانی
دیکھو تو کس مزے سے برسے ہے آج پانی
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

کتنے شراب پی کر ہو مست چھک رہے ہیں
مے کی گلابی آگے پیالے چھلک رہے ہیں
ہوتا ہے ناچ گھر گھر گھنگھرو جھنک رہے ہیں
پڑتا ہے مینہ جھڑا جھڑ طبلے کھڑک رہے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

ہیں جن کے تن ملائم میدے کی جیسے لوئی
وہ اس ہوا میں خاصی اوڑھے پھرے ہیں لوئی
اور جن کی مفلسی نے شرم و حیا ہے کھوئی
ہے ان کے سر پہ سر کی یا بوریے کی کھوئی
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

کتنے پھرے ہیں اوڑھے پانی میں سرخ پٹو
جو دیکھ سرخ بدلی ہوتی ہے ان پہ لٹو
کتنوں کی گاڑی رتھ ہیں کتنوں کے گھوڑے ٹٹو
جس پاس کچھ نہیں ہے وہ ہم سا ہے نکھٹو
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

جو اس ہوا میں یارو دولت میں کچھ بڑھے ہیں
ہے ان کے سر پہ چھتری ہاتھی پہ وہ چڑھے ہیں
ہم سے غریب غربا کیچڑ میں گر پڑے ہیں
ہاتھوں میں جوتیاں ہیں اور پائنچے چڑھے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

ہے جن کنے مہیا پکا پکایا کھانا
ان کو پلنگ پہ بیٹھے جھڑیوں کا خط اڑانا
ہے جن کو اپنے گھر میں یاں لون تیل لانا
ہے سر پہ ان کے پنکھا یا چھاج ہے پرانا
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

کتنے خوشی سے بیٹھے کھاتے ہیں خوش محل میں
کتنے چلے ہیں لینے بنئے سے قرض پل میں
کاندھے پہ دال آٹا ہلدی گرہ نے مل میں
ہاتھوں میں گھی کی پیالی اور لکڑیاں بغل میں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

جو کسبیاں جوانیں حسنوں میں پرتیاں ہیں
سینوں میں لال انگیاں اور لال کرتیاں ہیں
نظریں بھی بدلیاں ہیں دل میں بھی سرتیاں ہیں
اک اک نگہ میں کافر بجلی کی پھرتیاں ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

جو نوجواں ہیں ان کی تیاریاں بڑی ہیں
ہاتھوں میں لال چھڑیاں کوٹھوں پہ وہ کھڑی ہیں
اور وہ جو آشنا سے جھگڑی ہیں یا لڑی ہیں
منہ کو چھپا پلنگ پر مچلی ہوئی پڑی ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

کوئی اپنے آشنا سے کر ناز کا جھپٹا
کہتی ہے ہنس کے کافر چٹکی لے یا نہٹا
تم سے تو دل ہمارا اب ہو گیا ہے کھٹا
تم آج بھی نہ لائے رنگوا مرا دوپٹا
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

کہتی ہیں کوئی مجھ کو جوڑا سوہا بنا دو
یا ٹاٹ بافی جوتا یا کفش سرخ لا دو
کوئی کہے ہے میری کرتی ابھی رنگا دو
یا گرم سے اندرسے اک سیر بھر منگا دو
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

جو ان کے مبتلا ہیں سب چیز لا رہے ہیں
کرتی بنا رہے ہیں انگیا رنگا رہے ہیں
جو جو ہیں ان کی باتیں سب کچھ اٹھا رہے ہیں
باہیں گلے میں ڈالے عشرت منا رہے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

کتنوں نے قول باندھا معمولی دے کے پیسے
کہتے ہیں شاد ہو کر یوں اپنے آشنا سے
برسات بھر تو مل کے سنتے ہو جان پیارے
احمق ہو جو پلنگ سے اب موتنے کو اترے
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

یہ سن کے ان سے ہنس ہنس کہتی ہے شوخ رنڈی
معمولی اب تو لے کر بندی بھی ہے گھمنڈی
ہم پہنیں لال جوڑا تم پہنو خاصی بنڈی
خندی ہو جو تمہاری چھاتی کرے نہ ٹھنڈی
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

زردار کی تو ان میں ہے بچھ رہی پلنگڑی
دلبر پری سی بیٹھی جھمکائے چوڑی نبگڑی
مفلس کی ٹوٹی پٹی یا ٹاٹ کی جھلنگڑی
رنڈی ملی تو کالی یا کنجی لولی لنگڑی
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

کرتی گلابی جن میں گوٹے لگے ہوئے ہیں
انگیاں کے گرد جھوٹے گوٹے ٹکے ہوئے ہیں
کہتی ہیں ان سے ہنس ہنس جو جو کٹے ہوئے ہیں
لا اب تو میرے تجھ پر بارہ ٹکے ہوئے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

جو بیگمی ہے گھر میں آرام کر رہی ہے
پردوں میں دوستوں سے پیغام کر رہی ہے
چتون لگاوٹوں سے سو دام کر رہی ہے
چپکے ہی چپکے اپنا سب کام کر رہی ہے
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

کہتا ہے کوئی اپنے محبوب سیم بر سے
وہ اس مینہ میں نہ جاؤ پیارے ہمارے برسے
کوئی کہے ہے اپنے دل دار خوش نظر سے
ہاتھوں سے میرے جانی کھا لے یہ دو اندرسے
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

کہتا ہے کوئی پیاری جو کچھ کہو سو لا دیں
زر دوزی ٹاٹ بافی جوتا کہو پہنا دیں
پیڑا جلیبی لڈو جو کھاؤ سو منگا دیں
چیرا دوپٹہ جامہ جیسا کہو رنگا دیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

جن دلبروں کے تن پر ہیں گرمی دانے آلے
کہتے ہیں ان کو عاشق یوں پیار سے بلا لے
کیا مینہ برس رہا ہے پیارے ذرا نہا لے
چھاتی نہیں تو پیارے ٹک پیٹھ ہی ملا لے
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

اس رت میں ہیں جہاں تک گلزار بھیگتے ہیں
شہر و دیار کوچے بازار بھیگتے ہیں
صحرا و جھاڑ بوٹے کہسار بھیگتے ہیں
عاشق نہا رہے ہیں دل دار بھیگتے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

کہتی ہے جب وہ سن کر یہ بات بھیگ احمق
ماروں گی تیرے آ کر اک لات بھیگ احمق
مجھ کو بھی ضد چڑھی ہے دن رات بھیگ احمق
یوں ہی تو اب کے ساری برسات بھیگ احمق
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

زردار کی تو سن کر آواز وہ پری رو
کہتی ہے لونڈیوں سے جلدی کواڑ کھولو
مفلس کوئی پکارے تو اس سے کہتی ہے وہ
ہرگز کوئی نہ بولو احمق کو بھیگنے دو
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

کوئی یار سے کہے ہے اے دل ستان آؤ
بدلی بڑی اٹھی ہے کہنے کو مان آؤ
کیا مینہ برس رہا ہے ہر اک مکان آؤ
راتیں اندھیریاں ہیں اے میری جان آؤ
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

کوئی رات کو پکارے پیارے میں بھیگتی ہوں
کیا تیری الفتوں کے مارے میں بھیگتی ہوں
آئی ہوں تیری خاطر آ رے میں بھیگتی ہوں
کچھ تو ترس تو میرا کھا رے میں بھیگتی ہوں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

کوئی پکارتی ہے دل سخت بھیگتی ہوں
کانپے ہے میری چھاتی یک لخت بھیگتی ہوں
کپڑے بھی تر بہ تر ہیں اور سخت بھیگتی ہوں
جلدی بلا لے مجھ کو کمبخت بھیگتی ہوں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

شیشہ کہیں گلابی بوتل جھمک رہی ہے
رابیل موتیا کی خوشبو مہک رہی ہے
چھاتی سے چھاتی لگ کر عشرت چھلک رہی ہے
پائے کھٹک رہے ہیں پٹی چٹک رہی ہے
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

کوئی پکارتی ہے کیا کیا مجھے بھگویا
کوئی پکارتی ہے کیسا مجھے بھگویا
ناحق قرار کر کے جھوٹا مجھے بھگویا
یوں دور سے بلا کر اچھا مجھے بھگویا
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

جن دلبروں کی خاطر بھیگے ہیں جن کے جوڑے
وہ دیکھ ان کی الفت ہوتے ہیں تھوڑے تھوڑے
لے ان کے بھیگے کپڑے ہاتھوں میں دھر نچوڑے
چیرا کوئی سنگھاوے جامہ کوئی نچوڑے
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

کیچڑ سے ہو رہی ہے جس جا زمیں پھسلنی
مشکل ہوئی ہے واں سے ہر اک کو راہ چلنی
پھسلا جو پاؤں پگڑی مشکل ہے پھر سنبھلنی
جوتی گری تو واں سے کیا تاب پھر نکلی
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

کتنے تو کیچڑوں کی دلدل میں پھنس رہے ہیں
کپڑے تمام گندی دلدل میں بس رہے ہیں
کتنے اٹھے ہیں مرمر کتنے اکس رہے ہیں
وہ دکھ میں پھنس رہے ہیں اور لوگ ہنس رہے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

کہتا ہے کوئی گر کر یہ اے خدائے لیجو
کوئی ڈگمگا کے ہر دم کہتا ہے وائے لیجو
کوئی ہاتھ اٹھا پکارے مجھ کو بھی ہائے لیجو
کوئی شور کر پکارے گرنے نہ پائے لیجو
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

گر کر کسی کے کپڑے دلدل میں ہیں معطر
پھسلا کوئی کسی کا کیچڑ میں منہ گیا بھر
اک دو نہیں پھسلتے کچھ اس میں آن اکثر
ہوتے ہیں سیکڑوں کے سر نیچے پاؤں اوپر
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

یہ رت وہ ہے کہ جس میں خرد و کبیر خوش ہیں
ادنیٰ غریب مفلس شاہ و وزیر خوش ہیں
معشوق شاد و خرم عاشق اسیر خوش ہیں
جتنے ہیں اب جہاں میں سب اے نظیرؔ خوش ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.