Jump to content

برگشتہ اور وہ بت بے پیر ہو نہ جائے

From Wikisource
برگشتہ اور وہ بت بے پیر ہو نہ جائے
by یاس یگانہ چنگیزی
318435برگشتہ اور وہ بت بے پیر ہو نہ جائےیاس یگانہ چنگیزی

برگشتہ اور وہ بت بے پیر ہو نہ جائے
الٹی کہیں دعاؤں کی تاثیر ہو نہ جائے

دل جل کے خاک ہو تو پھر اکسیر ہو نہ جائے
جاں سوز ہوں جو نالے تو تاثیر ہو نہ جائے

کس سادگی سے مجرموں نے سر جھکا لیا
محجوب کیوں وہ مالک تقدیر ہو نہ جائے

دست دعا تک اٹھ نہ سکے فرط شرم سے
یا رب کسی سے ایسی بھی تقصیر ہو نہ جائے

مستوں کی ٹھوکر اور مرا سر ہے ساقیا
دشمن کسی کا یوں فلک پیر ہو نہ جائے

اٹھنے ہی کو ہے بیچ سے پردہ حجاب کا
محفل تمام عالم تصویر ہو نہ جائے

غفلت نہ کیجیو کبھی قاتل کی یاد میں
اے دل کوئی کمی تہ شمشیر ہو نہ جائے

بیٹھا ہے لو لگائے کوئی تیغ ناز سے
قاتل کسی کے کام میں تاخیر ہو نہ جائے

جلدی سبو کو توڑ کے ساغر بنا لے اب
ساقی اس امر خیر میں تاخیر ہو نہ جائے

نالوں نے زور باندھا ہے پھر پچھلی رات سے
اے چرخ چلتے چلتے کوئی تیر ہو نہ جائے

دل سے بہت شکایتیں کرتے ہو یار کی
دیکھو قلم سے کچھ کبھی تحریر ہو نہ جائے

سیر چمن سے دل نہ لگاؤ چلے چلو
فصل بہار پاؤں کی زنجیر ہو نہ جائے

انجام کار پر نہیں کچھ اختیار یاسؔ
تقدیر سے خجل مری تدبیر ہو نہ جائے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.