بسکہ دیدار ترا جلوۂ قدوسی ہے
Appearance
بسکہ دیدار ترا جلوۂ قدوسی ہے
دامن وصل بھی آلودۂ مایوسی ہے
ہے کہاں بوئے وفا اس دہن شیریں میں
غنچہ لب تیری زباں ہم نے بہت چوسی ہے
یار گو خون مرا مثل حنا ہو پامال
لیکن اپنے تئیں منظور قدم بوسی ہے
دل مرا خاک شگفتہ ہو چمن میں جا کر
گل میں یہ رنگ کہاں ایک تری بو سی ہے
ایک دن زلف کے منہ پر نہ چڑھی یہ کافر
یاد کاکل کو فقط شیوۂ جاسوسی ہے
وہ سجی تیغ کہ دم میں کرے لاکھوں کو قتل
کون کہتا ہے میاں تیری کمر مو سی ہے
شیخ روتا ہے اسے سن کے برہمن یکسو
پر اثر بس کہ مرا نالۂ ناقوسی ہے
چشم نمناک نے از بسکہ بجھایا اس کو
آتش عشق کہاں دل میں مگر لو سی ہے
اے فغاںؔ عشق کہاں دل میں بقول منتؔ
ہاں یہ سچ ملنے کی خوباں سے تو اک خو سی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |