بس خاک قدم دیجئے تکرار بہت کی
بس خاک قدم دیجئے تکرار بہت کی
مٹی مری اس خاک نے ہی خوار بہت کی
چڑ مجھ کو تجھے ریجھ کے تکرار بہت کی
خوش رہ کہ خوشامد تری اے یار بہت کی
ہرگز نہ گئی پیش نہ آیا مہ بے مہر
ہر چند کہ زاری پس دیوار بہت کی
لائی کشش دل ہی تمہیں تم نے تو ورنہ
یہاں آنے میں اک عمر تلک عار بہت کی
اس چشم نے دیکھا دل بیمار کو میرے
بیمار نے کل خاطر بیمار بہت کی
ابرو کی تصور میں ہوا قتل مرا دل
پھل کیوں نہ ملے مرد تھا تلوار بہت کی
عشاق میں میں ہی ہدف تیر ہوں اس کا
عظمت ہی یہی خدمت سرکار بہت کی
اس طرح کا بے دید تو غم ہوگا جہاں میں
کی ہم نے بھی ہے دید طرحدار بہت کی
صورت تری آگے ہی بھبوکا تھی ولیکن
زلفوں کے بکھرنے نے دھواندھار بہت کی
یہاں آٹھ پہر جنس سے وفا ہم نے دکھائی
دیکھا نہ خریدار تو ناچار بہت کی
یا رب نہ رہے نام جدائی کہ رہ عشق
آسان تھی پر اس نے ہی دشوار بہت کی
معلوم کوئی دن کو تجھے ہوگی حقیقت
کم اس ترے اقرار کی انکار بہت کی
ہر چند کہ خط سے بھی دھواں شکل ہے اے مہ
پر خط کی نہ رکھنے نے نمودار بہت کی
گھر میں نہ ترے کود سکا رات گئے میں
ہاں اپنی سی تدبیر تو اے یار بہت کی
بہبود کے آثار نہ دیکھے کبھو ہرگز
جس شخص نے اونچی تری دیوار بہت کی
کم ہم سا خریدار بہم پہنچے گا اس کو
کیوں عشق نے جنس غم بسیار بہت کی
بولا سر منصور سر دار پہ احساںؔ
حق ہے کہ سزا وار تھے پندار بہت کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |