بس دل کا غبار دھو چکے ہم
Appearance
بس دل کا غبار دھو چکے ہم
رونا تھا جو کچھ سو رو چکے ہم
تم خواب میں بھی نہ آئے پھر ہائے
کیا خواب میں عمر کھو چکے ہم
ہونے کی رکھیں توقع اب خاک
ہونا تھا جو کچھ سو ہو چکے ہم
کہسار پہ چل کے روئیے اب
صحرا تو بہت ڈبو چکے ہم
پھر چھیڑا حسنؔ نے اپنا قصہ
بس آج کی شب بھی سو چکے ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |