Jump to content

بس دل کا غبار دھو چکے ہم

From Wikisource
بس دل کا غبار دھو چکے ہم
by میر حسن دہلوی
316538بس دل کا غبار دھو چکے ہممیر حسن دہلوی

بس دل کا غبار دھو چکے ہم
رونا تھا جو کچھ سو رو چکے ہم

تم خواب میں بھی نہ آئے پھر ہائے
کیا خواب میں عمر کھو چکے ہم

ہونے کی رکھیں توقع اب خاک
ہونا تھا جو کچھ سو ہو چکے ہم

کہسار پہ چل کے روئیے اب
صحرا تو بہت ڈبو چکے ہم

پھر چھیڑا حسنؔ نے اپنا قصہ
بس آج کی شب بھی سو چکے ہم


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.