بس کہ اک جنس رائیگاں ہوں میں
بس کہ اک جنس رائیگاں ہوں میں
جتنا ارزاں بکوں گراں ہوں میں
نہ یہاں اور نہ اب وہاں ہوں میں
کیا بتاؤں تمہیں جہاں ہوں میں
یاد میں ہے کسی کی استغراق
کون پہنچے وہاں جہاں ہوں میں
مدد اے نغمہ سنجیٔ بلبل
کب سے گم کردہ آشیاں ہوں میں
ڈھب ہے یہ یار تک پہنچنے کا
کاش قاصد ہی کا بیاں ہوں میں
نے کی مانند خشک ہیں اعضا
کیوں نہ سر تا بہ پا فغاں ہوں میں
لطف پایا ہے خاکساری میں
ہوں زمیں گو کہ آسماں ہوں میں
کس نے جلوہ دکھا دیا ہے آج
زمزمہ سنج الاماں ہوں میں
تا کجا تیز گامیاں بس کر
توسن شوق ہم عناں ہوں میں
گرد دیتی ہے کارواں کا پتا
یادگار گزشتگاں ہوں میں
جان کیوں کر نثار مقدم ہو
اب وہ آئے کہ نیم جاں ہوں میں
کیا نہیں یاد برق کا گرنا
پھر بناتا جو آشیاں ہوں میں
یہ سفر دیکھیے کہاں ہو تمام
مثل ریگ رواں رواں ہوں میں
کوئی اس عہد میں نہیں ہے شفیق
آپ اپنے پہ مہرباں ہوں میں
دیکھ پچھتائے گا نہ لے کے مجھے
مایۂ نازش دکاں ہوں میں
عشق میں سو بلائیں لیں سر پر
اپنے حق میں خود آسماں ہوں میں
قدر کیوں خوان دہر پر ہو مری
سچ ہے نا خواندہ مہماں ہوں میں
اول شب ہی ہجر میں ان کے
ڈھونڈھتا خنجر و سناں ہوں میں
نہ ٹلا اس کے در سے اے مجروحؔ
دوسرا سنگ آستاں ہوں میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |