بس ہم ہیں شب اور کراہنا ہے
Appearance
بس ہم ہیں شب اور کراہنا ہے
یہ اور طرح کا چاہنا ہے
ہے وعدۂ وصل آج مجھ کو
اسباب طرب بساہنا ہے
ہیں ناوک غمزہ گرچہ کاری
میرا ہی جگر سراہنا ہے
دنیا ہے سرائے فانی اس میں
جو آیا ہے یاں سو پاہنا ہے
چتون میں کہے ہے یوں وہ مغرور
تجھ سے مجھے کیا نباہنا ہے
اے مصحفیؔ دل رہا ہے پیچھے
اس کو بھی ذرا نباہنا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |