Jump to content

بعض پرانے لفظوں کی نئی تحقیق

From Wikisource
بعض پرانے لفظوں کی نئی تحقیق
by سید سلیمان ندوی
319580بعض پرانے لفظوں کی نئی تحقیقسید سلیمان ندوی

لغت کا کام عام طور پر لفظوں کے معنی بتانا سمجھا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ قوموں کی طرح قومو ں سے متعلق ہر چیز مستقل تاریخ رکھتی ہے، زبان قوم کی تاریخ کا نہایت اہم جز ہے اس لئے زبان اوراس کے لفظوں کی تاریخ بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے اوریہ تاریخ ہمارے لغت کا بڑا اہم باب ہے لیکن افسوس ہے کہ اس طرف ابھی تک ہماری زبان کے لغت نویسوں نے توجہ نہیں دی ہے۔قومیں اپنی تاریخوں میں کتنی ہی خیانت کریں اوراس کے واقعات کو الٹ پلٹ ڈالیں مگرزبان اوراس کے الفاظ کا ذخیرہ ایک سچے امانت دار کی طرح پچھلی روداد کا ریکارڈ یا مسل ہمارے لئے تیار رکھتا ہے جس سے اس زبان کے محقق ضرورت کے وقت پوری طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ چنانچہ اگر ہم یہ جاننا چاہیں کہ کسی قوم سے تعلقات اوررابطے دنیا کی کن کن قوموں سے رہے ہیں تو اس قوم کے لفظوں کے خزانے میں ہمارے لئے معلومات کا بڑا سرمایہ محفوظ ملےگا۔ہماری ہندوستانی اردو زبان کی عمر چاہے کتنی ہی چھوٹی ہو پھر بھی اس کی ملکیت میں ایسے لفظوں کی کمی نہیں جو اپنی مستقل تاریخ رکھتے ہیں اور اپنی خاموش زبان سے ہم کو سنانے کے لئے بہت سے ایسے واقعات یاد رکھتے ہیں جن کو کاغذی تاریخ کے اوراق بھلا چکے ہیں۔ ہم اپنی زبان کے اس قیمتی سرمایہ کا آغاز سکوں سے کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ لفظی دولت مضمون کی معنوی دولت کے لئے فال نیک بن سکے۔دامہماری زبان کا ایک پامال لفظ دام ہے۔ ایک تواس کے معنی قیمت کے ہیں اور دوسرے معنی ایک معمولی سکہ کے ہیں جس کی ایک ذلیل ترین صورت ہماری زبان میں چھدام کی ہے، جو چھے او ر دام لفظوں سے بنا ہے۔ اس لفظ کی تاریخ کے لئے آج سے دوہزار سال پہلے ہم کو لوٹ کر جانا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ یونان کے کشورکشا اور سوداگر پورے ایشیا پر چھا گئے تھے۔ مصر وشام وعراق سے ایران اور ہندوستان تک کے ڈانڈے مل گئے تھے۔ ان ملکوں میں یونانی حکم اور یونانی سکے چلتے تھے اوران کے یونانی نام زبانوں پر تھے۔یونانیوں کے چاندی کے سب سے کم قیمت سکہ کا نام درہم تھا۔ اس نے عربی میں درہم اور فارسی میں بیچ سے ایک حرف گراکے درم کی صورت اختیار کی اور ہندوستانی میں ایک حرف گراکر اوراس کی جگہ ایک لمبی آواز بڑھ کر دام ہو گیا۔ یہ لفظ جس طرح سکہ کو بتاتا ہے، سکہ کے وزن کو بھی بتاتا ہے۔ چنانچہ عربی طب میں دواؤں کا وزن درہم اور فارسی طب میں درم سے بتایا جاتا ہے۔ اسی لفظ نے جب فرنگستان کی ٹوپی پہنی تو ڈرام ہو گیا جواب ہمارے انگریزی طبی کالجوں، دواخانوں او ر شفاخانوں میں ایک بیگانے کی حیثیت سے وارد ہے اورشاید اب کوئی پہچانے بھی نہیں کہ دام ڈرام دونوں کی شخصیت ایک ہی ہے، صرف آب و ہوا، لہجہ اور شکل وصورت کا فرق ہو گیا ہے۔اکبرکے زمانے میں دام چاندی کے سب سے چھوٹے سکے کے بجائے تانبے کے سکہ کا نام تھا (ص ۱۸ نول کشوری ۲) اس کو پہلے پیسہ کہتے تھے اوراب بھی کہتے ہیں۔ یہ روپیہ کا چالیسواں حصہ تھا، پھر ایک دام کے پچیس حصے کرکے ہر حصہ کو چیتل کہتے تھے اب اس کو گنڈہ کہتے ہیں۔ اکبر کے زمانے میں بھی اس کا نام ملتا ہے۔ (ص۱۲)اسی تقسیم سے ایک محاورہ یورپ کی زبان میں اور چلا ہے۔ ہر گاؤں یا ہر زمیندار کی ملکیت ۱۶ آنے فرض کی جاتی ہے اوریہ آنے پھر پائی اور دام پر بانٹے جاتے ہیں۔ ایک دام کا آدھا ادھیلہ اور ۱/ ۴، پاو لہ، اور۱ /۸ دمڑی کہلاتا ہے اوریہ اخیر لفظ دام کی تسخیر یا تحقیر ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوگا کہ جو دام قیمت کے معنی میں ہم بولتے ہیں وہ اسی سکہ کی یادگار ہے جس سے پہلے چیزوں کی قیمت کا اندازہ اور لین دین کا کاروبارکرتے تھے۔ آئین اکبری کے مطابق ایک من تانبے میں ایک ہزار چوالیس دام (پیسے) تیار ہوتے تھے۔ تغلقوں کے زمانہ میں ’’درم سنگ‘‘ خرید وفروخت کی تول میں باٹ کے معنی میں بولا جاتا تھا۔ (فیروزشاہی ضیا برنی ص ۳۱۹)کیرانتاودھ کے دیہاتی کاغذوں میں ۱۶ آنے کی تقسیم آنوں پر اور آنوں کی پائیوں پر اور اس کے بعد کیرانت اورجو پر ہوتی ہے۔ لفظی بہروپیوں کے پہچاننے والوں کو اس کے پہچاننے میں دقت نہیں ہوسکتی کہ یہ کیرانت عربی قیراط کی خرابی ہے، ایک عربی دینار میں بیس یا چوبیس قیراط ہوتے تھے، اور عربی زبان میں یہ لفظ قراط یونانی سے آیا ہے۔ ۳، آج کل انگریزی میں یہی لفظ کیرت (Carat) کی صورت میں مستعمل ہے اور انگریزی سونے کے بنے ہوئے زیوروں اور چیزوں میں اتنے کیرٹ گولڈ کی اصطلاح کا عام رواج ہے۔

اشرفی

درم اور قیراط جس طرح باہر سے آئے ہوئے نام ہیں اسی طرح ہمارے سب سے قیمتی سکہ اشرفی کا نام بھی باہر سے آیا ہوا ہے۔ مجھے بہت دنوں سے اس کی اصلیت کی تلاش تھی اور پتہ نہ چلنے پر اس کو یہ کہہ کر تسکین دے لی کہ چونکہ یہ طلائی سکہ سب سکوں میں اشرف ہے اس لئے اشرفی کہلایا مگر دفعتاً ایک غیر متوقع ماخذ سے اس کی اصلیت دریافت ہوئی تومعلوم ہوا کہ سکہ اشرف نہ تھا بلکہ جس بادشاہ کی طرف وہ منسوب ہے وہ اشرف تھا۔طلائی سکہ کے لئے سب سے پرانا نام دینار ہے اور یہ بھی یونانی۴، ہے مگر چونکہ عربوں میں یہ سکہ جاری تھا، اس لئے انہوں نے عبدالملک کے زمانے میں ۷۴ھ؍ ۶۹۳ء یا ۷۵ھ؍۶۹۴ء ۵، جب اپنا طلائی سکہ ڈھالا تو اس کا نام دینار ہی رہنے دیا۔ جب ان کے قدم ہندوستان پہنچے تو ان کا دینار بھی ان کے ساتھ آیا اور آج تک خاندانی مسلمانوں میں دین مہر کی تعداد میں سکہ رائج الوقت کے ساتھ چند ’دینارسرخ‘رسمی طور سے جاری ہے۔ تغلق کے زمانے میں ہم کو اشرفی کے لئے دولفظ ملتے ہیں ایک تنکۂ زر۔ یہ تنکہ سکہ کے معنی میں عام طور سے بولا جاتا تھا۔ ۵، (برنی ص ۳۱۴، ص۳۱۵) اوراسی سے تنخواہوں کی تعیین ہوتی تھی۔ پیادے کی ماہانہ تنخواہ ۲۴ تنکہ اور سوار کی ۷۸تنکہ تھی۔ (برنی ص ۳۱۹) مخدوم زادہ بغداد کے لئے دس لاکھ تنکہ وظیفہ مقرر ہوا۔ (برنی ص ۴۹۶) مصری خلیفہ کا سفیر جب سلطان محمد تغلق کے دربار میں آیا ہے اور جمعہ کے دن خلیفہ کا نام خطبہ میں پہلی بار پڑھا گیا ہے تو، چندیں طبقہا پراز تنکہ زرو نقرہ برآں نثارشد (برنی ص ۴۹۲)اس سے معلوم ہوا کہ اشرفی کے لئے اس زمانہ میں تنکہ زر بولا جاتا تھا۔ خلجی کے زمانے میں ایک تنکہ زر ایک تولہ سونے کا ہوتا تھا اور تنکہ نقرہ ایک تولہ چاندی کا (فرشتہ ص ۱۱۴) روپیہ کو تنکہ نقرہ اور اس سے کم درجہ سکہ کوصرف تنکہ کہتے تھے۔ یہ لفظ قدیم یادگار کے طور پر آج بھی بعض بعض پرانے خاندانی مسلمانوں میں دین مہر کی تعیین میں بولا جاتا ہے۔ (دیکھو مولانا حالی کا خط بنام سید سلیمان ندوی درمعارف) خیال ہوتا ہے کہ یہی تنکہ تو آج ’ٹکے کی صورت میں ہمارے سامنے نہیں۔دوسرا لفظ مہر زر ہے اس کو مہر اس لئے کہتے ہیں کہ اس پر شاہی نام نقش ہوتا تھا۔ مہرزر کی اصطلاح برنی میں ملتی ہے۔ سلطان محمد مہرمس پیدا آورد فرمان داد کہ مہر مس خرید و فروخت چنانچہ مہرزر ونقرہ جاری ست۔ (ص ۴۷۵) یہی مہر زر اکبر کے زمانہ میں بھی زبان و قلم پر تھا۔ آئین اکبری میں اکبری سکوں کے بیان میں بھی یہ لفظ ملتا ہے۔ (ص۱۷) اگرچہ اکبر نے اشرفی کے لئے سہنسہ، رئیس، آتمہ، چگل، بعل، جلال، آفتابی وغیرہ بنائے اور چلائے۔ مگر مہر کا نقش بھی مٹا نہیں بلکہ پرانی شاہی اشرفی کو آج بھی مہر کہتے ہیں۔دکن میں طلائی سکہ کا نام ’’ہون‘‘ تھا جو آخر میں مخفف ہوکر ہن رہ گیا، اور آج ہماری زبان میں اس نسبت سے دولت کی کثرت کے معنی میں ’ہن برسنا‘ ایک یادگار رہ گیا ہے۔ روپیہ کا لفظ اور سکہ شیرشاہ کا چلایا ہوا ہے۔ (آئین اکبری ص ۱۸) اور عجب نہیں ہے کہ روپا سے بنا ہو۔ سونے کے سکے کے لئے اشرفی کا لفظ ہندوستان میں نورالدین جہانگیر کے زمانہ میں استعمال میں آیا ہے۔ چنانچہ فرشتہ نے اپنی تاریخ میں حسن گنگوہی بہمنی کے خزانہ پا نے کی اتفاقی سرگزشت کے بیان میں لکھا ہے، زنجیررا در گردن ظرفے مملواز اشرفی علائی و طلائے غیرمسکوک دید۔ (فرشتہ نول کشوری ص ۲۷۴) فرشتہ کی تصنیف کا زمانہ ۱۰۱۵ھ؍ ۱۶۰۶ء سے ۱۰۳۳ھ ؍ ۱۶۲۳ء تک ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گجرات و دکن کی راہ سے یہ اشرفی مسافرانہ ہندوستان وارد ہوئی ہے۔یہ عجیب بات ہے کہ سونے کے لئے افریقہ کی طلاخیز اور زر ریز زمین ہی سب سے زیادہ موزوں ثابت ہوئی ہے۔ انگریزی گنی کا مولد افریقہ کا ملک گا ینایا گینی قرار پایا ہے جس کو عرب غانہ کہتے ہیں۔ اور بلادالتبر (سونے کا ملک) کے نام سے پکارتے تھے اور وہیں سے سونا لاتے تھے۔ وہم ہوتا ہے کہ غانہ کا تعلق عربی کے غنی اور غنا سے تو نہیں بہر حال ہماری اشرفی کا مولد ومنشا بھی ہندوستان نہیں بلکہ ایشیا بھی نہیں افریقہ کا ہی ایک گوشہ ہے۔ مگر دوسری طرف کا یعنی مصر۔مصر کے چرکسی بادشاہوں میں سے ایک برسبائی تھا۔ اس نے ۸۲۵ھ؍ ۱۴۲۹ء سے ۸۴۱ھ؍ ۱۴۳۷ء تک حکومت کی ہے اس کا شاہی لقب الملک الاشرف تھا۔ یہی اشرف اشرفی کا مصدر ومعدن ہے، مشہور عرب جہاز راں ابن ماجد اسدالبحر نے جس نے ۹۰۴ھ ؍۱۴۹۸ء) میں واسکوڈگاما کو ہندوستان پہنچایا تھا، الفوائد فی البحر والقواعد کے نام سے جہازرانی پر ایک کتاب لکھی ہے جو چند سال ہوئے کہ فرانس سے چھپ کر شائع ہو چکی ہے۔ اس کا زمانہ نویں صدی ہجری کا اخیر اور دسویں صدی ہجری کا شروع تھا۔ یہ بحرہند اور بحر عرب کا ایک نڈر جہاز راں تھا، گجراتی ہندو بیوپاریوں کی طرف سے اس کو کنکا کا سنسکرت خطاب ملا تھا جس کے معنی ماہرریاضی داں کے ہیں۔ (دیکھو میری کتاب عربوں کی جہازرانی ص ۱۶۳۔ ۱۳۷) اس کی اسی کتاب کے مطالعہ سے اشرفی کا بھید مجھے معلوم ہوا۔ ابن ماجد ایک خاص سلسلہ میں لکھتا ہے، والحادی عشر برسبی الاشرف ضارب سکۃ الاشرفی (ص ۰۴ طبع پیرس) گیارہواں بادشاہ برسا بی اشرف ہے جو اشرفی سکہ کا چلانے والا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ اشرفی سکہ مصر سے چل کر بحرہند میں داخل ہوا تھا اور وہاں سے پورے ہندوستان میں پھیل گیا۔ ابن ماجد نے اپنی یہ کتاب ۸۹۵ھ؍ ۱۴۸۹ء میں لکھی ہے اور اس سکے کے بانی کا ذکر کیا ہے۔ اور فرشتہ نے اپنی اصل کتاب اس کے بیس برس بعد ۹۱۵ھ میں لکھی اور ’’اشرفی علائی‘‘ کا نام لیا ہے یعنی علاء الدین خلجی کے وقت کی اشرفی، حالانکہ خلجی کے زمانہ میں اشرفی کا نام بھی پیدا نہیں ہوا تھا مگر یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم پرانے زمانے کے بادشاہوں کے سونے کے سکے کویا انگریزی پونڈ کو اشرفی کہہ دیتے ہیں۔بیمہ روپے اور اشرفی کی تقریب سے وہ طریقہ یاد آیا جس سے قیمتی چیزیں محفوظ کرکے ایک شہر سے دوسرے شہر بذریعہ ڈاک بھیجتے ہیں جس کو ہم آپ بیمہ کہتے ہیں۔ خیال یہ تھا کہ یہ ڈاک کے نئے طریقوں میں سے ہے اور جہاں سے یہ نئے طریقے آئے ہیں وہیں سے یہ لفظ بھی بگڑ کر آیا ہے۔ مگر اتفاق سے سجان رائے کی خلاصۃ التواریخ کا قلمی نسخہ نظر سے گزرا جوعالمگیر کے عہد کی تصنیف ہے۔ ۱۱۰۷ھ؍ ۱۶۹۵ء میں عالمگیر کی تخت نشینی کے چالیسویں سال مرتب ہوئی ہے۔ سجان رائے اہل ہند کی دیانت اور امانت داری کی دلیل میں یہاں کے مہاجنوں کے ذریعہ سے ترسیل زر کا حال لکھتا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے،لین دین میں یہاں کے لوگوں کی سچائی کا یہ حال ہے کہ کوئی کتنا ہی ناآشنا اورانجان ہو، گواہی اور شہادت کے بغیر ہزاروں روپے امانت صرافوں کے حوالے کر دیتا ہے۔ یہ صراف بھی ایسے سچے ہوتے ہیں کہ جب ان سے امانت واپس مانگئے بلاحیلہ حوالہ کئے بے توقف واپس کر دیتے ہیں اور طرفہ یہ کہ اگر کوئی دوردراز راستوں کے ڈر سے اپنا نقد روپیہ اپنے ساتھ نہ لے جاسکے تو وہ ان کے حوالہ کر دیتا ہے، یہ دیانت دار صراف ان روپیوں کو اپنی تحویل میں لے کر ہندی میں اپنے کارندوں کے نام جو ہر شہر میں ان کی طرف سے سچائی کی دوکان کھولے رہتے ہیں، ایک پرچہ لکھ کر دے دیتے ہیں اس کویہاں کی زبان میں ہنڈی کہتے ہیں۔ یہ کارندے اگرچہ سیکڑوں میل کی مسافت ہو، اس پرچہ کو دیکھنے کے ساتھ بلا حجت اس کو روپیہ دے دیتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر ہے کہ اس پرچہ کو جو کاغذ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ نہیں ہے، اگر مقررہ مقام کے علاوہ مالک کسی دوسری جگہ بیچنا چاہے تواتنے ہی روپے اس کو فوراً مل جائیں گے۔ صرف یہ ہوگا کہ خریدنے والا تھوڑا کمیشن (تمتع) اس سے لے لے گا۔

اب اس کے بعد اصلی فقرہ آتا ہے، ’’عجب تر آنکہ اگرتاجران بسبب طرق ہائلہ اقمشہ وامتعہ و دیگر اموال آنہا بجنس درقرار گاہ سلامت رسانیدہ بمالکان عائد می نمایند وآں را بزبان ایں دوم بیما گویند۔‘‘ اس عبارت سے یہ معلوم ہو گیا کہ پرانے ہندوستان میں منی آرڈر بھیجنے، بینک کا چیک استعمال کرنے اور قیمتی چیزوں کو ہمیشہ کسی دوسری جگہ بیمہ کرکے بھیجنے کا کیا طریقہ تھا اور اس سے لفظ بیمہ کی قدامت کا حال بھی معلوم ہوا۔

’’بزبان ایں دوم بیما گویند‘‘سے خیال ہوتا ہے کہ کوئی ہندی یا سنسکرت کا لفظ ہوگا، مگر میں نے ہندی اور سنسکرت کے عالموں سے اس کی تحقیق چاہی تو کوئی اس کا پتہ نہ بتا سکا۔ اس سے وہم ہوجاتا ہے کہ یہ فارسی لفظ بیم بمعنی خوف سے نہ لیا گیا ہو۔ سجان رائے نے اس بیان کا آغاز بھی ان لفظوں سے کیا ہے، ’’وطرفہ آنکہ اگر بنابرخوف مسالک ممالک شخصے مبغلہائے نقد بمسافت دور ونزدیک نتواند برد۔‘‘اس لفظ خوف سے بھی ادھر ہی خیال جاتا ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ فارسی لغت کی کتابوں میں یہ لفظ نہیں ملتا۔ انیسویں صدی عیسوی کے آخر میں سید تصدق حسین نامی ایک بزرگ نے لغات کشوری کے نام سے ایک فارسی لغت منشی نول کشور صاحب کے نام سے لکھا ہے اورنول کشور پریس میں ۱۹۰۰ء میں چھپا ہے۔ مؤلف نے مقدمہ میں یقین دلایا ہے کہ تمام لغات دیکھ کر بڑی احتیاط سے یہ لغت لکھا گیا ہے۔ اس میں بیمہ کے لفظ کے نیچے اس کو فارسی بتاکر یہ تشریح لکھی ہے، ’’بخوف رہ زنی جو کسی ساہوکار کو محصول کسی نقد یا مال کے پہنچانے کا دیں اور وہ اس کی حفاظت کا ذمہ دار ہو۔‘‘ لغات کشوری کی امانت ودیانت کا اگر اعتبار کیا جائے تو پھر بیمہ کے فارسی ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔ڈاک بیمہ کے ذکر سے سب کا خیال ڈاک، ڈاکخانہ اور ڈاک گھر کی طرف چلا گیا ہوگا۔ موقع ہے کہ آپ کے اس حسن التفات سے ہم فائدہ اٹھائیں۔ تعجب ہوگا کہ اس ڈاک کا ہمارے لغت میں پتہ نہیں۔ عربی میں ڈاک کے لئے برید کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں امیر معاویہ نے سب سے پہلے اس نظام کو قائم کیا اور برید اس کا نام پڑا۔ ہمارے عجمی اہل لغت نے اس کو فارسی بریدن سے لیا اور بتایا کہ چونکہ ڈاک کے لئے دم بریدہ یعنی دم کٹے گھوڑے کام میں لائے جاتے تھے اس لئے ڈاک کو برید کہنے لگے۔ حالانکہ اگریہ اشتقاق درست بھی ہوتا تو زیر کے بجائے ب کو پیش ہونا چاہئے تھا۔ اب نئی تحقیق یہ ہے کہ یہ یونانی اور لاطینی سے عربی میں آیا ہے اور وریڈاس کی اصل ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ پہلے یہی لفظ آیا پھر ترکی لفظ اولا غ چلا۔ (برنی ص ۴۴۷کلکتہ) مگر فوراً ہی اس کی جگہ ایک ہندوستانی لفظ نے رواج پایا اور وہ لفظ دھاوا ہے۔ چنانچہ تغلقوں کی تاریخ میں یہ لفظ بولا گیا ہے۔ ابن بطوطہ نے سفرنامہ میں بعینہ یہی لفظ لکھا ہے (۲ ص ۱ مصر) برنی نے فیروزشاہی میں اس لفظ کا استعمال کیا ہے۔ (ص ۴۴۷ کلکتہ)مگراس کو دھاوا کیوں کہتے تھے، اس کا پتہ اپنوں سے نہیں بلکہ ابن بطوطہ جیسے بیگانے سے چلتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دھاوا کے معنی اہل ہند میں تہائی میل کے ہیں۔ چونکہ یہ ہرکارے ہر تہائی میل پر مقرر ہوتے تھے اس لئے اس کو دھاوا کہتے تھے اور استعمال سے راستے کے بجائے خود راستے والے پیادے کو دھاوا کہنے لگے۔ لیکن غریب ناآشنا ئے زبان کو اس میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ دھاوا کے معنی سنسکرت میں دوڑنے کے ہیں، چونکہ یہ دوڑ کر چلتے تھے اس لئے ان کی چال کو دھاوا کہنے لگے۔ پھر خود دھاوا ہوگئے اورہر تہائی میل پر جہاں ٹھہرتے تھے، وہ دھاوا۷، ہو گیا۔ دھاوے کے ان پیادوں کی چوکیاں ہر تہائی میل پر دلی سے لے کر دولت آباد تک بنی ہوئی تھیں۔ پیادہ گھنگھرودار لاٹھی کو کندھے پر رکھ کر تیزی سے دوڑتا ہوا اگلے دھاوے تک پہنچتا تھا وہاں دوسرا پیادہ گھنگھرو کی آواز سن کر تیار رہتا تھا۔ وہ فوراً اس سے ڈاک لے کر آگے کے دھاوے کو دوڑتا تھا۔ اس طرح سندھ سے دلی ۵ دن میں ڈاک پہنچتی تھی۔ (ابن بطوطہ)اس دھاوے کی یادگار ہماری زبان میں دھاوا کرنا، دھاوے پر چڑھنا، دھاوا بول دینا آج بھی موجود ہے اور دھاوے کے پیادے کو پایک کہتے تھے جو پیک کی صورت میں محرم کی تقریب میں امام کے نقلی قاصدوں کا ہم نے نام رکھا ہے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ آل تیمور نے جب ہندوستان پر دھاوا کیا تویہ لفظ یہاں سے مٹ چکا تھا۔ چنانچہ اکبر کے زمانہ میں جب بدایونی نے اس لفظ کو استعمال کیا تواس کوترجمہ کی ضرورت ہوئی۔ سلطان محمدتغلق کے حال میں کہتا ہے، ’’در ۷۲۷ء سلطان محمدتغلق عزیمت دیوگیر کردہ از دہلی تا آنجا برسر کر دہے دھاوا یعنی پایکاں خبردار نشاندہ۔‘‘فرشتہ نے جہانگیر کے زمانے میں اپنی کتاب لکھی تو دھاوا کا لفظ مٹ کر ڈاک چوکی کا لفظ پیدا ہوچکا تھا۔ مگرکہتا ہے کہ اس کو پہلے یام (ی ام) کہتے تھے۔ سلطان علاؤ الدین کے حال میں لکھتا ہے، ’’از دہلی تا آنجا ڈاک چوکی کہ بزبان سلف یام می گفتند می نشاندہ۔‘‘ یہ یام فارسی استعمال میں ہے، دکن میں مدراس سے لے کر پوناتک اس کے لئے ٹپ ٹپال اور ٹپہ خانہ بولا جاتا ہے۔ ریاست حیدرآباد کا سرکاری لفظ یہی ہے۔بہرحال ڈاک کا لفظ جہانگیر کے زمانہ میں یا اس سے پہلے سے بولا جانے لگا۔ اس کی اصلیت پر میں غور کرتا رہا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اس کے معنی منزل کے ہوں گے چونکہ یہ منزل بہ منزل جاتے تھے اس لئے اس کو ڈاک کہنے لگے اوراس کے ہر پڑاؤ کو ڈاک چوکی بمعنی پہرہ جس کی ایک یادگار چوکیدار ہمارے پاس موجود ہے۔ اسی لئے انگریزوں نے اسی اصول سے بنگال سے الہ آباد تک اپنے منزل بہ منزل سفروں کے لئے جو مختصر قیام گاہیں بنائیں ان کو ڈاک بنگلہ کہا اوراب بھی وہ یہی کہے جاتے ہیں اور اگر لغت گڑھنے کا الزام نہ قائم کیا جائے توجی چاہتا ہے کہ یہ کہوں کہ ہندوسان اور افغانستان کی سرحد پر ڈکہ اور بنگال کی حد پر ڈھاکہ اور دوسری طرف موتی ہاری سے نیپال کے پاس دوسرا ڈھاکہ اسی منزل گاہ کے باقی نشان ہیں۔ بہرحال منزل نے راستے کی اور راستے نے خط و لفافہ اور اشیائے ڈاک کی صورت اختیار کی اور اب وہ ڈاک کے پچھلے معنی کی صورت ڈاک بٹھانا، ڈاک لگانا، یعنی جلدی جلدی منزل بمنزل یا ہاتھوں ہاتھ چیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا رہ گیا ہے۔فیض ساقی نے مرے ڈاک لگا رکھی ہےراسخؔروح ہے ہرجسم میں مشتاق اخبار اجلاس لئے یہ آمدورفت نفس کی ڈاک ہےناسخؔاسی سے ڈاک بولنا بھی ایک محاورہ ہے یعنی نیلام میں منزل بمنزل کسی چیز کی قیمت بڑھانا۔کچھ دن ہوئے ایک قلمی ہندوستانی فارسی لغت برادرم پروفیسر سید نجیب اشرف ندوی (اسماعیل کالج بمبئی) کے پاس نظر سے گزرا۔ یہ لغت کسی ایرانی یا پارسی نے لکھا ہے۔ تالیف کا سنہ نہیں معلوم۔ اس میں ایک لفظ ڈانکیہ دیکھا جس کے معنی نقیب کے لکھے ہیں۔ نقیب شاہی درباروں میں درباریوں کو با ادب رہنے کے لئے زور سے آواز لگایا کرتے تھے۔ ڈانکنا کے معنی زور سے آواز لگانے کے ہیں۔ اس سے دوسرا خیال یہ ہوتا ہے کہ ڈاک کی اصل ڈانک اور ڈاکیہ کی ڈانکیہ ہے، چونکہ ڈاک کا چوب دار آواز دیتا ہوا چلتا تھا، اس لئے اس کو ڈانکیہ اور اس کے کام کو ڈانک کہا گیا اور ڈانک نے ڈاک کی صورت بدل کر منزل بمنزل رفتار کے معنی اختیار کرلئے۔ اگلے زمانہ میں مصر وغیرہ اور ہمارے ملک میں بھی جہانگیر نے ڈاک کے کبوتر اڑا دیے تھے۔ اس لئے ایک اڑتی سی بات کبوتر ہی سے ملتے جلتے پرندے کی نسبت سن لیجئے۔قمری ہماری زبان میں ایک خوش نواپرندے کا نام قمری ہے۔ یہ نام عربی و فارسی سے آیا ہے مگراس کی اصلیت کے بتانے سے یہ دونوں زبانیں قاصر ہیں۔ فارسی کے خالص لغتوں میں یہ لفظ سرے سے نہیں۔ موید الفضلا میں جو عربی آمیز فارسی الفاظ کا پرانا لغت ہے، یہ ملتا ہے۔ اور تاج نام کسی حوالے سے لکھا ہے کہ فاختہ کو کہتے ہیں، پھر اس سے اختلاف کیا ہے کہ فاختہ اور چڑیا ہے اور قمری اور فاختہ کا رنگ خاکستری ہوتا ہے اوراس کی آواز یکے تو یاکوکوکو کی ہوتی ہے۔ گلے میں طوق ہوتا ہے اور قمری کی دوقسمیں ہوتی ہیں ایک سفید کافوری اور دوسری صندل، اوراس کی آواز سے یا غفور کی صدا نکلتی ہے۔تاج کے مشہور نام سے توجوہری کی تاج اللغہ کی طرف خیال جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جوہری نے قمری کا ذکر کیا ہے، مگر یہ نہیں لکھا ہے کہ فاختہ کوکہتے ہیں۔ بہرحال یہ لفظ فارسی نہیں ہے، عربی بھی نہیں، کیونکہ اول تو عرب اس سے واقف نہ تھے، ان کے شعروں میں اس کا ذکر نہیں، قدیم عربی لغت میں یہ مذکور نہیں، اس کی ساخت اصل عربی لفظ کی نہیں۔ اس کے اخیر میں جویائے مشدد ہے وہ نسبت کوظاہر کرتی ہے اوراسی نسبت کی طرف اکثر اہل لغت گئے ہیں۔ جوہری کی تحقیق یہ ہے کہ یہ قمر سے مشتق ہے جس کے معنی سپیدی کے ہیں۔ اوراس سے صفت بنی اقمر اس اقمر کی جمع ہوئی قمر، جیسے احمر سے حمر، اور اب یہ ہوا کہ سفید پرندوں کو جمع کے ساتھ یوں بولے طیر قمر۔ اب اس جمع کا واحد جب مراد ہوا توجمع کی طرف یائے نسبت لے کر قمری واحد بنا لیا، جیسے روم سے رومی، زنج (زنگ) سے زنجی (زنگی) مگر اس تحقیق میں بڑی کھینچ تان معلوم ہوتی ہے۔ عربی میں اس محنت سے کسی اورپرندے کا نام نہیں رکھا گیا۔مجد فیروزآبادی نے قاموس میں قمریہ لکھا ہے اور بتایا ہے کہ کبوتر کی ایک قسم ہے۔ مرتضیٰ زبیدی (بلگرامی) نے تاج العروس میں لکھا ہے کہ مجد نے یہ محکم زمخشری سے لیا ہے۔ بعضوں کا دعویٰ ہے کہ قمری عربی کا قدیم لفظ ہے، اس کی جمع قمر۔ ابوعامر نامی ایک جاہل عرب شاعر کے کلام میں ہے۔ ماقرقرقمر الواد بالشاہق۔ مگراس کا کوئی دوسرا شاہد نہیں۔ قمری کے آخر میں جوی ہے، اس کو کوئی صاحب یائے مبالغہ سمجھتے ہیں، مگراکثروں کی رائے یہی ہے کہ یہ یائے نسبت ہے۔ اب رہی یہ بات کہ کس کی طرف نسبت ہے تو بعض لوگ اس کو اس نام کے ایک پہاڑ کی طرف نسبت سمجھتے ہیں اور بعض اس نام کے کسی مقام کا ذکر کرتے ہیں، علامہ مرتضیٰ زبیدی نے تاج العروس میں اوپر کی تفصیل بتا کر لکھا ہے کہ ان کے استاد نے شرح کفایہ میں اس کی تحقیق کی ہے۔اب اہل لغت کے دربار سے اٹھ کر ہم آوارہ گرد جغرافیہ نویسوں کے مسافر خانوں میں پہنچتے ہیں، یاقوت رومی، معجم البلدان میں قمرنام کے ایک مصری شہر کا ذکر کرتا ہے اورابن الفارس سے نقل کرتا ہے کہ قمرپرندہ اسی شہر کی طرف منسوب ہے۔ مقر یزی خطط مصر میں دریائے نیل کے منبع کی تلاش میں نکلتا ہے اور بحرہند کے جزیروں کو دیکھتا بھالتا جاتا ہے اوراسی اثنا میں جزیرۂ قمر کا ذکر کرتا ہے اورجس کا دوسرا نام جزیرۂ ملائی بتاتا ہے، جس کو آج ہم ملایا کہتے ہیں انہی میں سے ایک جزیرہ قمریہ بتایا ہے اوراس کے بعدکہتا ہے کہ، والیہا ینسب الطائر القمری۔ اوراسی جزیرہ کی طرف قمری پرندہ منسوب ہے۔ (ص ۸۱ مصر) البیرونی نے کتاب الہند میں ملایا کے کچھ جزیروں کا نام قمیر۸، بتایا ہے۔ (ص ۱۰۳)پرندوں کے نام ان مقاموں کی نسبت سے رکھنا جہاں پہلے پہل وہ پرندے کسی خوش مذاق کو ہاتھ آئے ہوں، عام بات ہے، ترکی، چینی، شیرازی وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ اتنی مسافت طے کرنے کے بعد ذرا سستانے کے لئے غالبؔ کے اس شعر کا مطلب حل کیجئے،قمری کف خاکستر وبلبل قفس رنگاے نالہ نشان جگر سوختہ کیا ہےفارسی شاعروں نے گل و بلبل کی طرح سرد و قمری میں محبت کا رشتہ جوڑا ہے۔قمریاں پاس غلط کردۂ خود می دارندورنہ یک سرودریں بام باندام تو نیستایک اور یائے نسبت حل طلب ہے۔سوسی ہمارے ملک میں رنگین باریک دھاریوں کا ایک سوتی کپڑا ہوتا ہے، جس کو سوسی کہتے ہیں۔ اسلامی زمانہ کے اکثر بنے ہوئے کپڑے کے نام یا تو کاریگر کے نام یا مقام یا اس امیر بادشاہ کے نام یا اس کام کے نام پر رکھے جاتے تھے جو اس کپڑے میں خاص طور سے کیا جاتا تھا۔ جیسے تافتہ بافتہ، زری، کارچوبی وغیرہ۔ انگریزی میں ململ کو جو مسلین کہتے ہیں وہ موصل کی طرف نسبت ہے۔سوسی نہ تو شخص کا نام ہے نہ ہندوستان کے کسی مقام کا، یہ تو ظاہر ہے کہ اس کی نسبت سوسی کی طرف ہے۔ سوس کے نام سے ایک شہر ترکستان میں ہے اور دوسرا مغرب اقصیٰ یعنی ملک مراکش میں ہے مگر یہ دونوں پارچہ بافی سے کوئی نسبت نہیں رکھتے۔ لیکن ہے یہ واقعی شمالی افریقہ کے ایک صنعتی مقام کا نام، اس کا نام سوسہ ہے، یہ عربوں کی ترقی کے عہد میں پارچہ بافی کا بڑ ا مرکز تھا اوریہاں کے بنے ہوئے کپڑوں کوسوسی کہتے تھے۔ پھر اس نمونہ پر جہاں جہاں کپڑے بنے جانے لگے ان کو سوسی ہی کہنے لگے۔ یہ گویا ایک طرز کا نام ہو گیا۔ یہ کپڑے کبھی اس شان کے بنے جاتے تھے کہ ان کے ایک ایک تھان کی قیمت آٹھ آٹھ اشرفی ہوتی تھی۔ جغرافی ڈکشنری معجم البلدان کا مصنف یاقوت حموی رومی جس نے ۶۲۶ھ؍۱۲۲۹ء میں وفات پائی ہے۔ سوسہ کے ذکر میں لکھتا ہے،لفظ سوسہ صحیح یہ ہے کہ سوسا ایک چھوٹا شہرافریقہ کے اطراف میں ہے۔ یہاں کے اکثر باشندے کپڑا بننے والے ہیں۔ یہ بیش قیمت (یا باریک) سوسی کپڑے بنتے ہیں اور جوکپڑا دوسری جگہوں پر ویسا بنا جاتا ہے، وہ ان ہی کی نقل ہے (یا ان ہی کے مشابہ ہے۔) ان میں سے ایک تھان کی قیمت دس دینار ہے۔ اور جو دھاگا وہاں کتتا ہے اس کے ایک مثقال کی قیمت دومثقال سونا ہے۔لیکن ہماری ہندوستانی سوسی بہت سستی ہے اور غریبوں کی سترپوشی ہے۔ اکثر غریب عورتوں کے پاجاموں میں کام آئی ہے۔ چیز وہ نہیں رہی طرز وہی ہے، وہ ریشمی ہوگی یہ سوتی ہے۔ ایک مجہول یائے نسبت ہمارے خوش ذائقہ کھانوں میں بھی ہے۔فیرنی یہ ہمارے کھانے کی ایک لذیذ قسم ہے جس کے مزے سے ہم سب واقف ہیں، مگر اس کی لفظی اصلیت سے ہم سب ناواقف ہیں۔ پتہ چلتا ہے کہ فیرنی اصل میں فرنی (بالضم) ہے، چوتھی صدی کا مصنف محمدخوارزمی جو غزنیوں کا معاصر تھا، اپنی کتاب مفاتیح العلوم (ص ۱۶۶ لیڈن) میں بیماروں کی غذاؤں کے سلسلہ میں فرانی نام لیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس غذا کی تیاری کی صورت یہ ہے کہ وہ مختلف شکلوں کی موٹی تنوری پھولی ہوئی (پاؤ روٹی سمجھئے) روٹی کو دودھ میں بھگوکر شکرڈال کر تیار کی جاتی ہے۔ (نان بہ شیرکہئے) اس کا واحد فرنی ہے۔ اس کو فرنی اس لئے کہتے ہیں کہ یہ موٹی روٹی تنور میں جس کو عربی میں فرن کہتے ہیں، تیار ہوتی ہے گویا تنوری کوفرن کے معنی میں سمجھئے۔ ہندوستان کا اثر یہ ہے کہ موٹی پھولی ہوئی روٹی کے بجائے اس میں چاول ڈالنے لگے، اوراب شکرقند ہو، سابودانہ ہو، جس چیز کو آپ دودھ شکر میں پتلا کرکے بنائیں وہ فرنی ہے مگر اسی کے ساتھ اتنی ترمیم کیجئے کہ ف کو پیش کی جگہ زیر دیجئے۔یہی مصنف ہمارے بھات کا ذکر ایسے لفظوں میں کرتا ہے جن سے کھیر کی خوشبو آتی ہے۔ وہ کہتا ہے بھتہ (بہطہ) سندھی لفظ ہے۔ چاول میں گھی اور دودھ ڈال کر بناتے ہیں، کھیر اور شیر (دودھ) ایک ہی چیز ہے۔ سنسکرت میں دودھ کو کشیر اور سندھی میں کھیر کہتے ہیں، جس سے ہماری یہ کھیر پکتی ہے اوراسی لئے کھیر کہلاتی ہے، بھات سے بھاتی کا لفظ نکلا ہے جو میت کو کھانے کوکہتے ہیں۔ کیوں صاحبو انگریزی ملازموں کا بھتہ اسی بھات سے تو نہیں ہے، جس کا آغاز بنگال کے انگریزی نوکروں سے ہوا اور اس کے معنی خرچ خوراک کے ہیں۔ ۱۷۶۵ء ۱۷۶۷ء میں لارڈکلایو نے جواصطلاحات کیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی سپاہیوں کوتنخواہ کے علاوہ بھتہ دیا کرتی تھی۔ کلایو نے اس زمانہ میں اس کوبند کردیا۔ اس واقعہ سے بھی اس لفظ کا اصل تعلق بنگال سے ثابت ہوتا ہے۔رقم اس بھتہ سے لوگوں کو اچھی خاصی رقم ہاتھ آتی ہے، کبھی آپ دوسروں کے ذمہ اپنی رقم نکالتے ہیں اور کبھی دوسرے آپ کے ذمہ، مگر کبھی آپ نے سوچا کہ یہ ’’رقم‘‘ آپ کو کہاں سے ہاتھ آیا۔ آج ہم رقم روپے کی ایک مقدار کو کہتے ہیں، رقم کا لفظ یقیناً عربی ہے، مگر اس معنی میں نہ عربی میں مستعمل ہے نہ فارسی میں بلکہ یہ خالص ہندوستانی ہے۔رقم کے معنی عربی میں نشان بنانے اور کپڑے کی دھاری کے ہیں۔ حدیث میں ہے الارقمافی ثوب۔ اس سے لکھنے کے معنی ہوئے جیسے کالر قم علی الماء۔ عربی میں حساب اور ریاضیات کی کتابوں کے ترجمے ہوئے توعدد کے نشان کے لئے رقم کا لفظ پسند کیا گیا اور اس پسندیدگی کی وجہ شاید یہ ہے کہ رقم اور قلم ایک قافیہ کے لفظ ہیں اور قلم خط یا اسکرپٹ کے معنی میں استعمال ہو چکا تھا، اس لئے اسی کے وزن کا لفظ رقم اعداد کے لئے مناسب معلوم ہوا، جمع کے ساتھ اقلام اور ارقام بولے جاتے تھے۔ بیرونی نے کتاب الہند میں خطوط اور ارقام استعمال کیا ہے۔ (ص ۷۸) اسی سے اعداد کے علامات خصوصاً روپے کے اعداد کے علامات کے لئے جو خاص ہندوستان کی چیز ہے، ارقام ہندیہ مستعمل ہوا اورجب حساب کی اصطلاح میں ارقام اور رقم کا لفظ آ گیا تو نقد روپے کے لئے اس کا استعمال پاجانا کتنی بڑی بات تھی۔ہندسہ رقم سے ہندسہ کی طرف خیال گیا چونکہ ارقام، ہند سے عربی میں لئے گئے ہیں اس لئے عوام ہندسہ کو زیر کے بجائے زبر دے کر ہندسہ بولتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ چونکہ یہ ہندسے ہے، اس لئے ہندسہ ہے اور تعجب ہے کہ خوارزمی کے الجبر والمقابلہ کا انگریزی مترجم فریڈرک روزن تک اس وہم میں مبتلا ہے۔ (ص ۱۹۶، ۱۹۷مقدمہ انگریزی (۱۸۳۱ء) فارسی لغت برہان قاطع کے مصنف بھی اسی غلطی میں گرفتار ہیں۔ کہتے ہیں، ہندسہ بکسراول وثالث و فتح سین بے نقطہ بمعنی اندازہ و شکل باشد وارقامے را نیز گویند کہ درزیرحروف کلمات نویسند ہمچو ابجد ہوزحطی۔یہ بیان تمام تر غلط درغلط ہے۔ ہندسہ بفتح اول وثالث ورابع بروزن فعللہ فارسی لفظ انداز کا عربی بنایا ہوا مصدر ہے، معنی اندازہ کرنا اوراس سے مراد عمارت کا ناپنا اور نقشہ بنانا یعنی فن تعمیر ہے جس کو آج انجینئرنگ کہتے ہیں۔ بعضوں نے اس کو فارسی اندیشہ کا معرب بنایا ہے، مگریہ صحیح نہیں، خوارزمی (چوتھی صدی) مفاتیح العلوم میں کہتا ہے، اماالہندسۃ فکلمۃ فارسیہ معرب و فی الفار سیتہ اندازہ ای المقادیر قال الخلیل المہندس الذی یقدر مجاری القنی ومواضعہا حیث تحتفروہی مشتقۃ من الہند زہ وھی فارسیۃ فصیرت الزای سینا لانہ لیس بعدالدال زای فی کلام العرب۔ (ص ۲۰۲ لیڈن)(لیکن ہندسہ تویہ فارسی لفظ کا معرب ہے فارسی میں اندازہ ہے۔ یعنی مقدار، خلیل نے کہا ہے کہ مہندس وہ ہے جو نہروں کے نکالنے کا اندازہ و پیمائش کرتا ہے تاکہ نہریں کھو دی جائیں اور ہندزہ سے بنا ہے اور وہ فارسی ہے، توزکی جگہ س نے لے لی ہے، کیونکہ عربی میں دال کے بعد ز نہیں ہے۔)ریاضیات ہندسہ سے ریاضیات کی طرف ذہن نے کروٹ لی، عربی میں روض کے دومعنی ہیں۔ زمین کی سرسبزی وشادابی، اس نے باغ و بہار کا مفہوم پیدا کیا اور ریاض جنت کے پھول کھلائے۔ دوسرا مفہوم سواری کے جانوروں کے اور خصوصاً گھوڑے کے سدھانے، سکھانے اورپھیرنے کا ہے۔ عربی میں فعالہ کا وزن پیشہ، فن اور صنعت کے کام آتا ہے اس سے ریاضہ بن کر گھوڑا پھیرنے کا فن یا پیشہ پیدا ہوا۔ گھوڑے کو پھیر کر سیدھا اور شائستہ بنانے سے صوفیاء نے نفس کو رام کرکے شائستہ بنایا اور ریاضت روحانی اس کا نام رکھا۔ ادھر گوشت وپوست اور جوڑ بند کے حسن کے شائقوں نے جسمانی مشق وورزش کو ریاضت جسمانی کہا۔ اہل علم کیوں چپ رہتے، انہوں نے حساب وہندسہ وغیرہ مشقی علوم کو ریاضیات کا خطاب دیا۔ جاہل اہل پیشہ نے کہا کہ ہم کو بھی اپنے کاموں میں محنت کم نہیں پڑتی۔ انہوں نے بھی اپنی صنعت کاری اور دیدہ ریزی کا نام ریاض رکھا لیکن اس معنی میں یہ خالص ہندوستانی ہے۔عربی حکیموں نے ریاضیات کو ریاضیات کا لقب کیوں دیا؟ جبکہ ریاضیات کی یہ خصوصیت نہیں۔ ہر فن مشق کا محتاج ہے۔ اصلیت یہ ہے کہ ہندیوں کی طرح یونانیوں میں بھی بچوں کی تعلیم کا آغاز ریاضیات سے ہوتا تھا اسی لئے جب شروع شروع میں عربی میں یونانی علوم آئے توریاضیات کا نام تعلیمات پڑا، کیونکہ تعلیم کا آغاز اسی سے ہوتا ہے، اب عربی فلسفہ میں اس اصطلاح کا اثر اتنا ہی رہ گیا ہے کہ مقدار مطلق کا نام اس میں اب بھی جسم تعلیمی ہے لیکن تعلیمات کی جگہ بہت جلد اس سے بہتر لفظ ریاضیات نے لے لی۔ اس لئے بچوں کی مشقی تعلیم اسی سے شروع ہوتی ہے۔ علامہ شریف جرجانی اپنی تعریفات میں جسم تعلیمی کے نیچے لکھتے ہیں، ویسمی جسما تعلیمیا اذیحبث عنہ فی العلوم التعیلیمۃ ای الریاضیہ۔۔۔ منسو بۃ الی التعلیم والریاضیہ فانہم کانوا یبدؤن بہا فی تعالیمہم وریاضتہم لنفوس الصبیان۔سیاست ریاضت کے وزن پر سیاست ہے اور آج کل کا کیا کہنا کہ ساری دنیا میں اسی کی بہار ہے، مگر معلوم ہے کہ اس کی اصلیت کیا ہے؟ لغت میں اس کے اصلی معنی جانوروں کی دیکھ بھال اور نگرانی ہے اوراسی سے امیر کی اپنی جماعت کی اور بادشاہ کی اپنی رعایا کی نگرانی اور خدمت کا مفہوم پیدا ہوا۔ ظالم بادشاہوں کے ظلم نے اس کے معنی بدل دیے۔ اسی سے سیاست کردن، سزا دینے کے اور اردو میں قہر وغضب کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔عوض اللہ اس کا محکمہ میں حشر کے لے گاکرے گا جو سیاست حاکم ظالم رعیت پرصباؔسیاست کے لفظ کویہاں ذکر کرنا کچھ اتنا ضروری نہ تھا، مگرمجھے پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ (ماسوف علیہ) کی تحقیق سے اختلاف مقصود تھا، سواء السبیل فی معرفۃ المولد والدخیل میں وہ کہتے ہیں کہ سیاست ترکی ہے۔ چنگیز خاں نے اپنی اولاد کے لئے جو چند ملکی قاعدے بنائے تھے ان کا نام’’سہ یا سہ‘‘تھا اسی سے عربی میں سیات آیا ہے۔ مگر یہ خیال قطعاً غلط ہے۔ یہ لفظ عربی میں اتنا پرانا ہے کہ حدیث تک میں موجود ہے۔ ان الناس کان یسوسہم الانبیا (صحیح مسلم) پہلی صدی ہجری کے آخر میں محمد بن قاسم نے جب سترہ برس کی عمر میں سندھ فتح کیا تو ایک شاعر نے اس کی مدح میں کہا، ساس الرجال لسابع عشرۃ حجۃ، اس نے ۱۷ برس کی عمر میں لوگوں کی سیاست کی۔ ابن ندیم نے فہرست میں جو ۳۷۵ء تاتاریوں سے صدیوں پہلے لکھی گئی سیاسیات کا لفظ سیاسی ملکی کتابوں کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ پھر قدیم کتب لغت میں اس کی اصل موجود ہے۔ہاں اپنی زبان کے تعلق سے یہ کہنا رہ گیا کہ ہماری زبان میں سائیس اور سئیس کا لفظ اسی سیاست سے بنا ہے۔ اس کی اصل سائس ہے مگر پیشے اور نوکری کے لحاظ سے سائیس کا یہ مفہوم خالص ہندوستانی ہے۔ نہ عربی ہے نہ فارسی مگر شوخی معاف، آپ نے یہ دیکھا کہ سیاسی اور سائیس دونوں کی اصل ایک ہی ہوئی۔ دونوں نگرانی اورنگہبانی کرتے ہیں، سیاسی آج کل جس کوکہتے ہیں، ہمارے تازہ دکھنی نوجوانوں نے اس کے لئے سیاس کا ایک نیا لفظ گھڑا ہے، مگر بالکل بے اصل اور بے قیاس ہے، یہ لفظ واوی ہے یائی نہیں۔ دھوکا سیاست اور سیاسی کی ’ی‘ سے ہوا ہے مگر واؤ کی جگہ یہ ی قاعدے سے ہے اور سیاس میں واؤ کی جگہ ی بے قاعدہ ہے۔ اگریہ لفظ بن بھی سکتا تو سواس ہوتا، سیاس نہیں۔ اب یہ سیاس جب تک چل نہ جائے، غلط العام فصیح کے حکم میں نہیں آسکتا۔ بحث سیاسیات کی خطرناک الجھنوں میں پڑ کر خطرناک ہو رہی ہے اس لئے خاموشی ہی بہتر ہے۔(۲)لیکن کافی غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اب سیاسیات وہ پہلے کے سیاسیات نہیں رہے۔ اب یہ سننے میں آتا ہے کہ سیاسیات کا اصلی میدان لاکھوں مربع میل کا وہ میدان نہیں ہے جس کو اگلے لوگ سلطنت وحکمت کہتے تھے۔ بلکہ یہ دوبالشت کا پیٹ ہے، اسی کی خاطر سب کچھ ہے۔ اگلے زمانے کے بھولے بھالے بزرگ کہا کرتے تھے، خوردن برائے زیستن است نہ زیستن برائے خوردن۔ یعنی کھانا جینے کے لئے ہے نہ کہ جینا کھانے کے لئے۔ حضرت مسیح کہتے تھے کہ آدمی روٹی ہی سے نہیں جیتا لیکن آج کل کی سیاسیات نے ان دونوں مقولوں کو جھٹلا دیا ہے۔ اب یہ ہے کہ جینا کھانے کے لئے ہے نہ کھانا جینے کے لئے اوریہ کہ آدمی روٹی ہی سے جیتا ہے۔ چنانچہ آج کل کے بولشزم، کمیونزم، سوشلزم وغیرہ کی بنیاد زمین پر نہیں پیٹ پر ہے۔پیٹ کے کھانوں میں سب سے ضروری کھانا کون سا ہے؟ لوگ اپنے اپنے تجربے اور عادات کے مطابق اس کے کئی جواب دے سکتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جومیرا خیال ہے وہی اکثروں کا ہے۔ یعنی یہ کہ کھانوں میں سب سے زیادہ ضروری کھانا ناشتہ ہے۔ صبح سویرے اٹھ کر منہ میں کچھ پڑ جانے سے سارے دن کے لئے ڈھارس ہو جاتی ہے۔یہ عجیب بات ہے کہ ناشتہ کے لئے اکثر زبانوں میں بھوک توڑنے کی اصطلاح بن گئی ہے۔ میں دوزبانیں جانتا ہوں ایک پورب کی اور ایک پچھم کی۔ یعنی عربی اور انگریزی، دونوں میں یہی بات ہے۔ اس سے سمجھتا ہوں کہ اور زبانوں میں بھی کچھ ایسا ہی حال ہوگا، عربی میں اس کو فطور کہتے ہیں اسی سے مسلمانوں کا افطار نکلا ہے اورجس سے افطارکریں اس کو افطاری کہتے ہیں۔ فطور کے معنی توڑنے کے ہیں یعنی روزہ کی بھوک کو توڑنا، ہمارا ناشتا بھی اسی قسم کا لفظ ہے فارسی میں اس کے معنی اس بھوکے کے ہیں جس نے صبح سے کچھ نہ کھایا ہو۔ (موئدالفضلاء و برہان قاطع) اب دیکھئے کہ یہ نام تواس آدمی کا تھا جس کے منہ میں صبح سے کچھ نہ پڑا ہواور اب ہم اس چیز کو کہتے ہیں جو صبح سویرے ایسے آدمی کوکھلا دی جائے یعنی شخص کے بجائے چیز کا نام ہو گیا۔اس معنی میں ایک اور لفظ نہار آپ بولتے ہیں، نہار منہ۔ یہ فارسی ہے، مگر دیکھئے کہ یہ فارسی ہندوستانی سے ایسا مل گیا ہے کہ گویا ہندوستانی ہی ہے۔ اس کی اصلیت ’’ناہار‘‘ہے۔ نانفی کے لئے ہے اور ہار کے معنی غذا کے ہیں۔ ’’ناہار‘‘ یعنی نہیں کھایا ہوا (برہان قاطع) اب اس سے ناہاری یعنی نہاری ہوئی جو صبح کو نہارمنہ کھائی جائے اور لکھنؤ دلی میں یہ خاص چیز ہوگئی، جو بازاروں میں پکی پکائی چٹ پٹ ملتی ہے۔نہار سے آبار یاد آیا، آبار آٹے کی اس لیئی کو کہتے ہیں جوکاغذ اور کپڑے پر اس لئے چڑھائی جاتی ہے کہ وہ مضبوط ہو جائے۔ آپ سن چکے کہ آبار غذا کو کہتے ہیں جو بدن کی تقویت کا باعث ہوتی ہے، اسی سے اس لیئی کوبھی کہنے لگے جوکاغذ اورکپڑے کی قوت کو بڑھا دیتی ہے۔ (برہان قاطع)ناشتے کے طورپر جلدی جلدی جو کھانا پہلے تیار کرکے مہمان کے سامنے رکھ دیا جائے، عربی میں اس کو سُلفہ کہتے ہیں، اسی سے سلف (اگلے لوگ) کا لفظ نکلا ہے۔ عربی کا یہ سلفہ ہمارے ملک میں کھانے کے دسترخوان پر توبار نہ پاسکا، مگرپینے کی یارانہ محفل میں ایک ہزار برس کے بعد اس کو جگہ مل گئی۔ نورالدین جہانگیر کے زمانہ میں تمباکو امریکہ سے ہندوستان آیا اورحکیم گیلانی کی پرحکمت ترکیبوں سے توا، چلم، حقہ اور نے کی شکل پیدا ہوئی۔ یہ توا میروں کی باتیں تھیں۔ اس حقہ کی تیاری کے لئے بڑا وقت، بڑا سامان اور ایک دو ملازم چاہئیں اور غریبوں کے پاس نہ اتنا وقت نہ اتنا سامان نہ ملازم، انہوں نے اپنے ہاتھ سے بھر کر سلفہ جلدی جلدی تیار کر لیا اور پی پلاکر اپنے کام پر روانہ ہو گئے۔تکلف کے کھانوں کو قابو ں میں نکالتے ہیں، عربی لفظ قعب ہے اس کے معنی لکڑی کے پیالہ کے ہیں جو لکڑی کے بیچ میں کھود کر بنایا جائے (لسان) لیکن ترکی میں اور اس سے فارسی میں قاب کے معنی مطلق ظرف یا خانہ کے ہیں۔ اسی لئے عینک کے خانہ کو اور قلم دان کو قاب کہتے ہیں اور پھر اسی سے کھانے کے بڑے برتن کو بھی ہمارے ملک میں قاب کہنے لگے۔ یہی حال رکابی کا بھی ہے، رکاب فارسی میں ہشت پہل پیالہ کوکہتے ہیں اسی سے رکابی بنی اوراب وہ پھیلے ہوئے چوڑے ظرف کو کہتے ہیں اور اسی سے ہندوستانی امراء کے لئے رکاب دار پیدا ہوئے جو کھانے کا انتظام کرتے تھے یا عمدہ عمدہ کھانے تیار کرتے تھے۔روز مرہ کے کھانوں میں قلیہ قورمہ بہت عام چیزیں ہیں، قلیہ کی شکل عربی ہے مگرمعنی عربی نہیں، قلیہ کی عربی شکل قلیتہ ہو سکتی ہے، عربی میں قلی بھوننے کو کہتے ہیں۔ اس سے قلیہ بن سکتا ہے اور بھونے ہوئے گوشت کو کہہ سکتے ہیں۔ ہماری زبان میں قلیہ اس شوربہ دار گوشت کو کہتے ہیں جس میں کوئی ترکاری پڑی ہو۔ بلکہ اس ترکاری کو قلیہ کہنے لگے ہیں قورمہ توترکی معلوم ہوتا ہے۔ شوربا توصاف عربی کا شُربہ ہے مگر معنی بدل گئے ہیں۔ عربی میں شربۃً اس کو کہتے ہیں جتنا ایک دفعہ پی لیا جائے، اس سے ایرانیوں نے شوربا بنا لیا اور گوشت کے پانی کوکہنے لگے۔ انہوں نے شوربا کو پھر شورباج بنا لیا مگر ہماری ہندوستانی میں شوربا ہی رہا، بگڑا توشروا۱۰، ہوگیا۔اسی عرب شُرب (پینا) سے ایرانیوں نے شراب اورشربت تیار کیا اور ہم ہندوستانیوں نے قبول کرلیا۔ شراب کے عربی معنی ہیں جو چیز پی جائے یہاں تک کہ قرآن میں دودھ کو بھی شراب کہا ہے۔ ایرانیوں نے جس کو شراب کہا اس سے متوالی شراب مراد لی۔ اس سے یورپی زبانوں میں سیرپ SYRUP تیار ہوا جو شکر پڑ کر میٹھا ہو گیا۔ لیکن ایرانیوں کے اثر سے ہم نے پانی میں شکر گھول کر جو چیز تیار کی اس کو شربت کا نام دیا۔ لفظ عربی ہے اور معنی عجمی، عربی میں اس کے معنی فقط پینے کے ہیں۔ میٹھے کے بعد نمکین چیز یادآئی کباب۔ صورت عربی ہے، معنی عربی نہیں۔ کب عربی میں اوندھے کرنے کوکہتے ہیں، اب جس گوشت کو اوندھا کرکے آگ پر رکھئے اس کو کباب کہئے۔کھانے کے بعد تکلفات کی دوسری قسم فرش فروش ہیں۔ قالین سے بڑھ کر خوشنما، خوبصورت اور مضبوط فرش شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ جو زمین کے فرش پر نہیں بیٹھتے وہ بھی کرسیوں کے نیچے اس کو بچھاتے اور اس سے لطف اٹھاتے ہیں مگریہ کوئی نہیں بتاتا کہ یہ آیا کہاں سے۔ ہندوستان میں اس کو مسلمان لائے۔ مگرمسلمانوں کو یہ ملا کہاں؟ تاریخ کا یہ بھید خود اسی لفظ کے اندرچھپا ہے۔ایشیائے کوچک میں آرمینیہ کے علاقے میں ایک شہر کا نام قالیقلا ہے۔ چوتھی صدی ہجری میں یہ اسلامی حکومت کا آخری شہر تھا۔ اس طرف جب نسبت کی جاتی تھی توقالی کہتے تھے۔ عربی زبان کا ایک مشہور ادیب اور لغوی اسی نسبت سے ابوعلی قالی کہلاتا ہے۔ یہ فرش قالین اسی شہر کی صنعت اور کاریگری ہے، اسی لئے اس ’فرش قالی‘ پہلے نسبت کے ساتھ کہا گیا، پھر استعمال کی کثرت سے اس کا نام ہی قالی پڑ گیا۔ یاقوت رومی متوفی ۶۲۶ء اپنے جغرافیہ معجم البلدان میں قالیقلا کے نیچے لکھتا ہے، وتعمل بقالیقلا ہذہ البسط المسماۃ بالقالی، اختصروا فی النسبۃ الی بعض اسمہ لثقلہ۔ (ج۷، ص ۱۷ مصر) یہ فرش جس کا نام قالین ہے قالیقلا میں بنایا جاتا ہے لفظ میں ہلکاپن کے لئے نسبت میں اختصار مدنظر رکھا ہے (یعنی قالیقلائی کی جگہ صرف قالی کہا ہے)موئد الفضلاء میں جو فارسی کا قدیم لغت ہے اس کو ’قالی‘ لکھا ہے اور ایک شعر نقل کیا ہے۔ فارسی شعرا نے بھی قالی ہی باندھا ہے اورجس چیز کو ہم غالیچہ کہتے ہیں، عجب نہیں کہ وہ قالیچہ ہو یعنی چھوٹا قالی، اب آخر کانون، جو قالین میں ہے وہ ’ین‘ ہے وہ نسبت کے معنی بخشتا ہے جیسے رنگ سے رنگین، قالین کے معنی وہ فرش جوقالی کی طرح ہو، ایک ی چونکہ پہلے سے موجود تھی، اس لئے دوسری میں نہیں لگی۔ یہ تحقیق میری ایجاد ہے، معلوم نہیں صحیح ہے یا غلط۔تکلفات کی تیسری قسم مکانات ہیں۔ پہلے بڑے محلوں اور ایوانوں میں اور اب بڑی بڑی کوٹھیوں میں اس حصہ کو جو نوکروں کے لئے بنایا جاتا ہے، ہماری زبان میں شاگرد پیشہ کہتے ہیں۔ بے چارے مولوی نورالحسن صاحب نیر مرحوم (نوراللغات کے مصنف) نے ایک دفعہ مجھ سے استفسار فرمایا کہ اس کو شاگرد پیشہ کیوں کہتے ہیں۔ میں نے ظرافت سے کہا کہ مغل درباروں میں جب بادشاہ پیری مریدی کرنے لگے تو نوکر چاکر چیلہ کہلانے لگے جس کی شہادت تاریخوں کے علاوہ دہلی کا ’کوچہ چیلاں ‘ دے رہا ہے۔ اسی چیلے کی فارسی شاگرد بنائی گئی اور شاگرد پیشہ اس گروہ خدام کا نام پڑا اوراس سے ان کے رہنے کے حصے کو بھی شاگرد پیشہ کہنے لگے۔کچھ دنوں کے بعد اپنی بڑی بچی شمیمہ بانو سلمہا کو گلستاں پڑھا رہا تھا، اس میں وہ حکایت آئی جس میں پردہ اور عَلم کا مناظرہ ہے،ایں حکایت شنو کہ در بغداد رایت و پردہ را خلاف افتادعلم شاہی نے جھک کر پردہ شاہی سے شکایت کی کہ سفر میں اور لڑائیوں میں تو مارا مارا میں پھرتا ہوں اور قرب سلطانی تم کو حاصل ہے، تم نازنیں کنیزوں کے ہاتھوں میں رہتے ہو اور، من فتادہ بدست شاگرداں۔ اس سے خیال آیا کہ شاہی ملازمین اور خدم وحشم کے معنوں میں یہ پرانا لفظ ہے اوراسی سے شاگرد پیشہ ہے اورہماری زبان میں محلوں کے اس حصے کو کہنے لگے جو خاص طور سے ان کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ ۱۱،ایک ہندوستانی لفظ کی اصلیت پر مجھے بڑا تعجب آیا۔ ایک بار میں عربی کا مشہورلغت تاج العروس دیکھ رہا تھا کہ لفظ راز پر نظر پڑی۔ اس کے معنی اس میں استاداورماہر کے لکھے تھے، دفعتاً میرا دھیان اپنے ہندی راج اور جاگیر (معمار) کی طرف گیا، لیکن یقین نہیں آتا تھا کہ عربی کا ایسا لفظ جو عربی میں بھی کتابوں اور تحریروں میں برتا نہ گیا ہو، وہ ہماری ہندوستانی کیسے آ گیا ہوگا لیکن دل یہی کہتا تھا۔ کتابیں الٹیں پلٹیں، دیکھیں مگر سراغ نہ لگا۔ اس سال کی گرمیوں کی تعطیل میں برادر عزیز پروفیسر نجیب اشرف ندوی سے پٹنہ میں نصاب الصبیاں کی طرح کا ایک قلمی رسالہ فارسی عربی ہندی کا ملا، جس میں فارسی اور عربی الفاظ کے مقابل ہندی الفاظ جمع کئے گئے ہیں اور شایدکسی ایرانی یا پارسی کی تصنیف ہو، مصنف کا نام اور زمانہ نہیں دیا ہے۔ رسالہ کا نام ’’لسان فارسیات‘‘ لکھا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ہندوستان کے کسی نووارد ایرانی کے لئے لکھا گیا ہو۔ تصنیف کا مقام گجرات ہے، اس میں پیشہ وروں کا باب دیکھ رہا تھا کہ لفظ جاگیر پر نظر پڑی جس کے معنی اس نے کریا یعنی کرنے والے کے لکھے تھے، دل نے کہا مدت کا کانٹا آج نکل گیا اورمعلوم ہوا کہ صحیح لفظ راجگیر ہے۔ پھر بھی پوری تشفی نہیں ہوئی، خدا بخش خاں کے کتب خانہ میں چلا گیا۔ فارسی لغت کی کئی کتابیں نکلوا کر دیکھیں، مطلب کا پتہ نہ پایا۔ آخر فرہنگ رشیدی عبدالرشید ٹھٹوی میں یہ عبارت نکلی، ’’راز معمار وسرداران گل کاران بہ ہندی راج گویند لیکن بدیں معنی عربی است۔ عسجدی گوید،بہ یکے تیر ہمہ فاش کند سر حصار در برد کردہ بود قیر گل کا ر راز۔‘‘اس عبارت نے پوری تشفی کردی، واپس آکر برہان قاطع میں دیکھا تویہ لکھا پایا، وگل کار را گویند وبعربی طیان خوانند و بعضے گفتہ اندر از در عربی کلانترو بزرگ نبایاں باشد۔ یعنی جس معنی میں ہم مستری کا لفظ بولتے ہیں۔ اچھا تو پھر مستری کیا لفظ ہے؟ خیال جاتا ہے کہ یہ اصل مسطری ہے۔ مسطر اس آلہ کو کہتے ہیں جس سے سطر سیدھی کی جاتی ہے، پرانے زمانے میں ایک موٹے کاغذ پر موٹے تاگے کو سیدھ سے ناپ کر آج کل کے رول دار کاغذ کی طرح سی دیتے تھے اوراس پر لکھنے کے کاغذ کو دبا کر سطروں کو ابھارتے تھے تاکہ لکھنے میں سطریں سیدھی ہوں، یہ تو کاغذ کی بات ہوئی۔ عمارتوں میں دیواروں کی سیدھ قائم کرنے کے جس آلہ سے کام لیا جاتا تھا وہ بھی مسطر ہوا اور اس مسطر سے جوماہر فن دیکھ بھال اور ناپ کر عمارت کی دیواروں کی سیدھ درست کرتا تھا، وہ مسطری کہلایا اور پھر جب وہ ہندوستانی زبانوں سے ادا ہوا تو مسطری کا مستری ہو گیا اوراب ہماری زبانوں کا لفظ ہے اور ماہر کاری گر کے معنی میں بولا جاتا ہے۔بڑھیوں کی بول چال میں ایک لفظ خراد اور خرادنا ہے۔ میز، کرسی، یا پلنگ وغیرہ کے پایوں کو چھیل کر کہیں موٹا کہیں پتلا کہیں گاؤ دم وغیرہ شکلیں بناتے ہیں۔ یہ خالص عربی لفظ خرط ہے، عربی میں اس کے معنی لکڑی کے اس طرح چھیلنے کے ہیں کہ اس کی اوپری پرت اتر جائے۔ اس سے خراط بنا یعنی وہ آلہ جس سے لکڑی کو اس طرح چھیلا جائے، وہ خراط ہمارے یہاں خراد ہوا اوراس سے خراد پر چڑھانا محاورہ خرادنا مصدر بنا۔ ۱۳، یہ لفظ اس حقیقت کا پتہ دیتا ہے کہ لکڑی کی یہ صنعت کاری مسلمانوں کے ذریعہ ہندوستان میں آئی اورپھیلی۔معماروں کے ایک ضروری آلہ کا نام ہماری زبان میں ساحول ہے، لمبے تاگے میں ایک وزنی لوہا یا اورکوئی دھات گول سی بندھی ہوتی ہے۔ اس کو نیچے لٹکاکر اونچائی سے دیوار کی سیدھ دیکھتے ہیں، خوارزمی نے مفاتیح العلوم میں ایک آلہ کا نام شاقول لکھا ہے اور اس کی یہ تشریح کی ہے ’ھوثقل یشدبہ فی طرف حبل یمدہ سفلایحتاج الیہ النجارون والبناؤون۔ ‘ (لیڈن ص ۲۵۵) یعنی وہ ایک بوجھل چیز جو رسی کے کنارے باندھ کر نیچے لٹکائیں اوراس کی ضرورت بڑھیوں اور معماروں کوہوتی ہے۔ اس تشریح سے یہ تومعلوم ہوگیا کہ ہندی ساہول کی عربی صورت شاقول ہے۔ عربی میں ثقل کے معنی وزن کے لکھے ہیں مگر کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شاقول ش سے نہیں بلکہ ثاقول ث سے ہو یعنی ثقل اور بوجھ کے معنی مگرہیئت کی کتابوں میں بھی شاقول ہی دیکھا گیا ہے۔ کیا وہاں بھی تصحیف ہوئی ہے۔اس کتاب میں بڑھیوں کے ایک اوزار کا نام الکونیا بتایا گیا ہے اوراس کی تشریح یہ کی گئی ہے کہ یقدرون بہا الزاویۃ القائمۃ (ص ۲۵۵)، یعنی اس سے زاویہ قائمہ نکالتے ہیں۔ کوئی کچھ کہے، ہو نہ ہو لفظ ہمارا کونیا ہے جس کو آج بھی ہمارے کاریگر بولتے اور برتتے ہیں اوراس کا تلفظ کنیا ہے یعنی وہ آلہ جس سے کونہ (زاویہ) ناپیں۔ یہ ہاتھ ڈیڑھ ہاتھ کی دولکڑیاں ہوتی ہیں جن کو خط مستقیم جوڑ کر کونہ (زاویہ قائمہ) نکالتے ہیں۔یہ کتاب چوتھی صدی ہجری میں لکھی گئی ہے۔ یہ لفظ اتنے پرانے زمانے میں ہندوستان سے غزنویوں کے زمانہ میں وسط ایشیا تک کیسے چلا گیا۔ اس کے بالمقابل ایک دوسرا لفظ ہے جو وسط ایشیا سے ہندوستان آیا ہے۔ یہ جہاز کا لفظ ہے۔ جہاز دیکھنے میں عربی ہے مگر جس معنی میں یہ ہماری زبان میں بولا جاتا ہے وہ قطعاً ہندوستانی یا ہندوستانی فارسی ہے۔ اصل میں اس کے لفظی معنی تو سامان کرنے کے ہیں، اس سے تجہیزبنا، جس کے جہازیوں میں یہ معنی پیدا ہوئے کہ کشتی میں سامان رکھ کر کہیں بھیجنا۔ یہ اصطلاح تیسری صدی ہجری میں پھیل چکی تھی، بزرگ بن شہریار کے سفرنامہ میں ہے، انہ جہز مرکب لہ الی الزابج (ص۸) اس نے اپنا ایک جہاز سامان لاد کر جاوہ بھیجا۔یہ تو دریائی اصطلاح ہوئی لیکن اس کے سوبرس بعد یہ لفظ وسط ایشیا میں خشکی کے سامان تجارت کے معنوں میں سننے میں آتا ہے، حدود العالم میں جو ۳۷۱ھ کی تصنیف ہے۔ یہ لفظ ان معنوں میں بار بار آیا ہے، شروع شروع میں تومجھے تعجب ہوا کہ یہ جہاز خشکی میں کیسے چلا بعد میں سمجھ میں آیا کہ ابھی یہ لفظ سامان کرنے کے معنی سے قطع مسافت کرکے سامان کی منزل میں پہنچا ہے۔ وجہاز ہاے ہندوستان بدیں شہر افتاد۔ وآنجا بردۂ ہند وجہاز ہندوستان افتد (ص ۱۴۴ایران) اس سے یہ بات سمجھ میں آگئی کہ یہی جہاز بعد کو خشکی سے تری میں آ گیا اور سامان تجارت کے بجائے سامان تجارت لے جانے والے جہازوں کو خود جہاز کہنے لگے۔ ہندوستان میں اکبر کے زمانے میں فرشتہ نے اس لفظ کو اس معنی میں استعمال کیا ہے۔و بگفتۂ فرنگیاں جہازات متردد ساختند (ج۲ ص ۳۷۲ نول کشور) اب ہماری زبان میں یہ لفظ مطلق جہاز کے معنی میں بولا جانے لگا اور سامان تجارت اس سے رخصت ہو گیا۔اس سے ہماری زبان میں خوشی اور غم کے دو لفظ نکلے ہیں ایک جہیز اور دوسرا تجہیز۔ جہیز اس سامان کو کہتے ہیں جو شادی میں باپ کی طرف سے لڑکی کو ملتا ہے۔ اس معنی میں یہ لفظ بھی خالص ہندوستانی ہے، اس کی اصل جہاز ہے۔ سامان دینا یا سامان کرنا، عربی اور فارسی کے قاعدے سے الف میں امالہ ہوکر جہاز سے جہیز ہو گیا اوراب جہیز پر کسی عرب یا ایرانی کا قبضہ نہیں رہا۔ جہاز، مردہ کے کفن دفن کے سامان کو بھی عربی میں کہتے ہیں جس سے مصدر تجہیز بنا، یعنی سامان کرنا۔ اس سے ہماری زبان میں تجہیز و تکفین کا لفظ پیدا ہو گیا۔ذرا ذرا سی مناسبت سے دیکھئے تو کیسے کیسے لفظ بنتے اور معنی بدلتے ہیں۔ ذرا ا سی ’’ذرا‘‘پر غور کیجئے، کیا یہ عربی کا ذرہ نہیں جس کو آپ ذرۂ بے مقدار کی صورت میں اچھی طرح پہچانتے ہیں مگراستعمال کی کثرت سے مخفف ہوکر ذرا کے بہت ہی تھوڑے معنی ہو گئے اور ایسے ہوگئے کہ اب اس کو ذرہ سے ذرا بھی تعلق نہیں رہا۔ہماری زبان میں لفظ مضمون کی سرخی یعنی عنوان ہے۔ دیکھئے تویہ سیاہی سے سرخی کیسے بن گیا۔ بات یہ ہے کہ پہلے زمانے میں قلمی کتابوں میں بات اور عنوان کو امتیاز کے لئے سرخی سے لکھا کرتے تھے، اب ہمارے زمانہ میں جب چھاپا ایجاد ہوا تو خود باب کے یا مضمون کے عنوان کو سرخی کہنے لگے۔ چاہے آپ اس کو سیاہی سے لکھیں۔ اس لفظ کی یہ توجیہہ توپہلے ہی سے ذہن میں آرہی تھی مگر اتفاق سے ایک پرانی قلمی کتاب سے سند ہاتھ آ گئی تواپنے ذہنی الہام پر تصدیق کی مہر لگ گئی۔ شیخ محمود چراغ دہلی کے مرید سید محمدحسن اپنے مکتوبات میں ایک جگہ لکھتے ہیں، ’’کیفیت دیباچہ کہ بقلم مبارک آں محبوب بنشتہ بودند برائے سرخی بنشتن آں سپیدی بنشتہ عین فرستادہ شدہ است ور دیباچہ نبویسند۔۔۔ ذات لفظ صلوۃ سرخی بنویسند۔‘‘ (کتب خانہ حکیم عبدالعزیز مشرقی جالندھر شہر)کاغذات کی مسل (م س ل) ایک عام دفتری اصطلاح ہے۔ اس کی اصل عربی لفظ ’مثال‘ ہے۔ سرکاری شاہی کاغذات کی اصل تو دفتر میں رہتی تھی اوراس کی بعینہ نقل (مثال) لوگوں کے پاس بھیجی جاتی تھی۔ اس سے مثال کے دوسرے معنی فارسی میں شاہی فرمان کے پیدا ہوئے اور اس کی جمع امثلہ اور مثل بنی۔ مثال اور مثل نے مسلسل ہندی شکل اختیار کی۔ مثال اورامثلہ کا استعمال غالباً سلجوقیوں کے زمانہ سے رواج پایا، تاریخوں میں کثرت سے یہ لفظ آتا ہے۔ مثال کے لئے غزنوی عہد کے مبارک شاہ معروف بہ فخرمدیر کی کتاب آباد الحرب و الشجاعۃ ص ۱۲ کا ایک ٹکڑا پیش ہے، ’’مثال توقیع برسانند کہ ہرچہ تعجیل تربیاید۔‘‘نستعلیق ایک خاص فارسی خط کا نام ہے۔ یہ اصل میں نسخ اور تعلیق کی ہندی ترکیب ہے۔ ہندی ترکیب کا خاصہ ہے کہ جب دو لفظ ملاکر ایک بنائے جاتے ہیں توبیچ کا ایک آدھ حرف لفظ کو ہلکا کرنے کے لئے گرا دیتے ہیں۔ اس طرح نسخ وتعلیق مل کر نستعلیق بنا۔ عرب میں نسخ لکھنے اور نقل کرنے کو کہتے ہیں۔ اسی مناسبت سے اہل عجم نے عربی خط کا نام نسخ رکھا، تعلیق اور تعلیقہ کے نام سے اس نے فارسی شکل اختیارکی اوران دونوں سے مل کر نستعلیق خط بابر کے زمانے میں بنا۔ یہ وہی خط ہے جس میں آج کل اردو لکھی جاتی ہے۔ یہ خط دوسرے شکستہ وغیرہ خطوں کے مقابلہ میں بہت بنا کر نہایت تکلف سے ٹھہر ٹھہر کر لکھا جاتا ہے۔ اس سے نستعلیق آدمی اور نستعلیق چال کی شکلیں پیدا ہوئیں۔ چراغ ہدایت میں ہے، نستعلیق گوئی حرفہا را ساختد گفتن و عبارت را بتکلف ادا ساختن اشرف گوید۔ ز نستعلیق گویا قوت لب، ریحال خط واعم۔ اس سے ہماری زبان میں یہ وسعت پیدا ہوئی کہ نستعلیق لباس، نستعلیق چال اور نستعلیق بول چال کہنے لگے۔بعض لفظوں کی ظاہری شکل وصورت کیسا دھوکا دیتی ہے کتنے ہندوستانی لفظ ایسے گورے چٹے ہوتے ہیں کہ ولایتی معلوم ہوتے ہیں اور بعض سانولے رنگ کے ایرانی بھی دیکھے ہیں۔ ہماری زبان کا ایک بہت ہی خوبصورت لفظ چلبلا ہے جو غزل گوشاعروں کے ہاں خوب خوب کام آتا ہے۔ اس کی شکل توہندی ہے مگر ہے ایرانی، برہان قاطع میں ہے، ’’چلبلہ بضم اول وبائے ابجد بروزن سنبلہ شتاب واضطراب را گویند۔‘‘ ہم سمجھتے تھے کہ اس کا تعلق ہمارے ہندی لفظ چھل بل سے ہے۔ اب غور کرنا پڑے گا۔لفظ بھی کیا کیا صورت بدلتے ہیں، موٹے کپڑے کوہم گفش کہتے ہیں۔ مگر یہ آیا کہاں سے۔ فارسی میں اس کی صورت گبز ہے۔ بفتح اول و سکون ثانی وزائے نقطہ دار۔ ہر چند گندہ قوی وسطر را گویند (برہان قاطع) اس کی ودسری شکل غفص کی ہے۔ صورت تو عربی ہے مگر عربی نہیں۔احُدی کے معنی ہماری زبان میں سست اور کاہل کے ہیں۔ مگران سست کاہلوں کی پیداوار تاریخی ہے۔ احُدی احَدی ہے، احد کے معنی عربی میں ایک ہیں۔ وہ سپاہی جو فوج سے اکیلا ڈیوڑھی کی خدمت پر مامور رہتا تھا۔ اکبرؔ نے اس کواحدی (اکیلا) کا لقب بخشا۔ یہ احدی کھاتے تھے اور ڈیوڑھی پر پڑے رہتے تھے۔ کوئی کام کاج ان سے متعلق نہ تھا۔ اس لئے زبان خلق نے اس کو سست وکاہل کے معنوں میں کہہ کر پکارا۔ زبان خلق کو کون روک سکتا ہے۔ہماری زبان میں ایک لفظ قلعی ہے۔ آیئے اس کی بھی قلعی کھولیں۔ ہم لکھتے تو قلعی ہیں مگر بولتے قلئی ہیں۔ ہماری زبان میں اس کے معنی سپیدی اور صفائی کے ہیں، برتنوں پر قلعی کی جاتی ہے اور مکانوں پر قلعی پھیری جاتی ہے۔ یہ لفظ گوپرانی عربی کا نہیں مگرپھر بھی عربی لغتوں میں ملتا ہے۔ قلعی عربی میں (لسان) اور اسے فارسی میں (موئد الفضلا) رانگے کو کہتے ہیں۔ مگررانگے کو قلعی کیوں کہتے ہیں؟ لسان العرب کا بیان ہے کہ قلع ایک کان کا نام ہے جس سے رانگے کی بہترین قسم نکلتی تھی۔ اس لئے اس کی طرف نسبت کرکے اچھے رانگے کو قلعی کہتے ہیں اور چونکہ اسی رانگے سے تانبے کے برتنوں میں سپیدی پھیری جاتی ہے، اس لئے اس کو قلعی کرنا کہنے لگے۔ پھر چونے سے بھی اگرمکانوں میں سپیدی پھیری گئی تواس کو بھی قلعی پھیرنا کہہ دیا۔ ہماری زبان میں ان استعمالوں سے یہ معنی پیدا ہوئے کہ کسی داغ دھبے یا کسی کے عیب کو اگر چھپایا جائے تووہ اس پر قلعی کرنا ہوا اور اگراس داغ دھبے کو ظاہر کرکے سب کو دکھایا جائے تو وہ قلعی کھولنا ہوا۔تماشا بھی عجیب تماشے کا لفظ ہے۔ لفظ تو عربی ہے لیکن معنی عجمی ہیں۔ یہ مشی سے بنا ہے جس کے معنی چلنے کے ہیں۔ اس کو باب تفاعل میں لے گئے توتماشی ہوا اورمعنی باہم مل کر چلنا ہوئے، عجمیوں نے تماشی کو اپنے قاعدے سے تماشا بنالیا، جیسے تمنی کو تمنا بنا دیا۔ چونکہ سیر وتفریح کے لئے چند احباب ساتھ مل کر چلتے ہیں، اس لئے خود سیروتفریح کو تماشا کہنے لگے۔ اس کے بعد آگے بڑھے تو سیر وتفریح کے سامان کا بھی تماشا نام رکھا۔بجرم عشق تو را ماکشند غوغائیستتو نیز بر سر بام آکہ خود تماشا ئیست

حاشیے

(۱) یہ مقالہ ہندوستانی اکاڈمی کے ادبی کانفرنس الہ آباد پڑھا گیا۔

(۲) آئین اکبری جلد اول۔

(۳) لسان العرب لفظ قرط ج ۹

(۴) جرجی زیدان نے اس کو لاطینی لکھا ہے، تاریخ تمدن اسلامی ص ۱۱۹ج

(۵) مقدمہ ابن خلدون ص ۲۱۸

(۶) ڈاکٹر تاراچند نے بتایا کہ تنکہ سنسکرت میں سکہ کوکہتے ہیں۔

(۷) مولوی غلام مصطفی خاں لکچرر ایڈورڈ کالج امراوتی مطلع فرماتے ہیں کہ برامہ میں دھاوے کے معنی دومنزلہ مکان کے ہیں ہوسکتا ہے کہ یہ چوکیاں دومنزلہ ہوتی ہوں۔

(۸) ہمارے دوست تارا چند نے بتایا ہے کہ انگریزی و فرنچ میں کھمیر Khmer کہتے ہیں۔

(۹) افسوس ہے کہ میری کتاب عرب و ہند کے مصحح نے اپنی غلط تصحیح سے صحیح کو غلط کردیا ہے۔ (دیکھو کتاب مذکور ص ۱۴۵)

(۱۰) ڈاکٹر عبدالستار صدیقی نے معارف کے ایک مضمون میں بڑی تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ عربی نہیں فارسی لفظ ہے۔ شور اور با سے مرکب ہے۔ شور نمکین اور با فارسی میں کھانے کوکہتے ہیں۔ شوربا نمکین کھانا کھانے کے معنی میں شکنبا باورچی اور نانبائی کے لفظو ں میں ہے۔

(۱۱) مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی کا ارشاد ہے کہ اس شاگرد کی اصل ’’شاہ گرد‘‘ ہے۔ بادشاہ کے اردگرد جو لوگ رہتے تھے ان کو شاہ گرد کہتے تھے اور کثرت استعمال سے وہ شاگرد ہو گیا۔ (س)

(۱۲) ڈکٹر عبدالستار صدیقی صاحب مستری کو پرتگالی فرماتے ہیں اور اس کی اصل بتاتے ہیں۔ مگر پرتگالی میں خود بہت سے عربی لفظ ہیں۔ (س)

(۱۳) پروفیسر غلام مصطفی خان لکھتے ہیں کہ شاید ظہوری نے نثرسوم میں سب سے پہلے خراط کی جگہ خراد استعمال کیا ہے۔ وہ کہتا ہے، فرور از استقا تش خراد رندہ کردہ است کج روی زنیہار (معارف مارچ ۱۹۴۱ء ص ۲۰۰)


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.