Jump to content

بغور دیکھ رہا ہے ادا شناس مجھے

From Wikisource
بغور دیکھ رہا ہے ادا شناس مجھے
by آرزو لکھنوی
318284بغور دیکھ رہا ہے ادا شناس مجھےآرزو لکھنوی

بغور دیکھ رہا ہے ادا شناس مجھے
بس اب ذلیل نہ کر اے نگاہ یاس مجھے

یہ دل ہے شوق میں بے خود وہ آنکھ نشہ میں چور
جھکا نہ دے سوۓ ساغر بھڑکتی پیاس مجھے

ادھر ملامت دنیا ادھر ملامت نفس
بڑا عذاب ہے آئے ہوئے حواس مجھے

پلٹ دو بات نہ لو منہ سے نام رخصت کا
ابھی سے گھر نظر آنے لگا اداس مجھے

جو ملتفت ہیں یہ نظریں بدل بھی سکتی ہیں
بنا چکا ہے زمانہ ادا شناس مجھے


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.