بغیر اس کے یہ حیراں ہیں بغل دیکھ اپنی خالی ہم
بغیر اس کے یہ حیراں ہیں بغل دیکھ اپنی خالی ہم
کہ کروٹ لے نہیں سکتے ہیں جوں تصویر قالی ہم
کوئی آتش کا پرکالہ جو وقت خواب یاد آوے
تو سمجھیں کیوں نہ انگارے یہ گل ہائے نہالی ہم
ارادہ گر کیا دشنام دینے کا اب اے پیارے
تو لب سے لب ملا کر بس تری کھا لیں گے گالی ہم
نہ ہو پہلو میں اپنے جب وہ سبزہ رنگ ہی ظالم
تو پھر کس رنگ کاٹیں یہ بلا سے رات کالی ہم
لڑی ہے آنکھ اس سے جو یہ چتون میں جتاتا ہے
کسی کی کیا ہمیں پروا ہیں اپنے لاابالی ہم
نہ ہو وہ سیم تن پاس اپنے جب سیر شب مہ میں
کریں تو دیکھ کیا بس ایک پیتل کی سی تھالی ہم
جو ہو دور از خیال مانیؔ و بہزادؔ ہر صورت
بغیر از مو قلم کھینچیں وہ تصویر خیالی ہم
کریں وصف جمال یار میں اک شعر گر موزوں
تو سمجھیں انتخاب جملہ اشعار جمالی ہم
بہ کنج بے کسی پڑھتے ہیں جو ہم مرثیہ دل کا
تو ہیں آپ ہی جوابی اور آپ ہی ہیں سوالی ہم
وہ ڈوبا عطر میں ہو مست مئے مصروف سیر گل
اور اس کو اس روش دیکھیں درون باغ خالی ہم
گل امید تو شاید کہ اپنا بھی شگفتہ ہو
تعجب کچھ نہیں گر پائیں پھل پاتے سہالی ہم
زبس حالات عشق اب ہم پہ طاری ہے سدا جرأتؔ
بہ طرز عاشقانہ کہتے ہیں اشعار حالیؔ ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |