Jump to content

بلبل سنے نہ کیونکہ قفس میں چمن کی بات

From Wikisource
بلبل سنے نہ کیونکہ قفس میں چمن کی بات
by شیخ قلندر بخش جرات
296745بلبل سنے نہ کیونکہ قفس میں چمن کی باتشیخ قلندر بخش جرات

بلبل سنے نہ کیونکہ قفس میں چمن کی بات
آوارۂ وطن کو لگے خوش وطن کی بات

مت پوچھ حال اپنے تو بیمار عشق کا
ہونے لگی اب اس کے تو گور و کفن کی بات

ہے موسم بہار میں با صد زباں خموش
غنچے نے کیا سنی تھی کسی کے دہن کی بات

عیش و طرب کا ذکر کروں کیا میں دوستو
مجھ غمزدہ سے پوچھئے رنج و محن کی بات

ناصح میں کیا کہوں کہ ہوا کس طرح سے چاک
دست جنوں سے پوچھو مرے پیرہن کی بات

تھا عاقل زمانہ پہ دیوانہ ہو گیا
جس شخص نے سنی مرے دیوانہ پن کی بات

سر دیجے راہ عشق میں پر منہ نہ موڑیئے
پتھر کی سی لکیر ہے یہ کوہ کن کی بات

بزم چمن بھی اس سے خجل ہے بہار میں
کیا پوچھنے ہے یار تری انجمن کی بات

یارو میں کیا کہوں کہ جلا کس طرح پتنگ
پوچھو زبان شمع سے اس کی لگن کی بات

شاید اسی کا ذکر ہو ہر رہ گزر میں میں
سنتا ہوں گوش دل سے ہر اک مرد و زن کی بات

وہ شے نہیں ہے ہم میں کہ جس سے ملے وہ یار
آتی ہے یوں تو ہم کو بھی ہر ایک فن کی بات

جرأتؔ خزاں کے آتے چمن میں رہا نہ کچھ
اک رہ گئی زباں پہ گل و یاسمن کی بات


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.