بلبل نے جسے جا کے گلستان میں دیکھا
Appearance
بلبل نے جسے جا کے گلستان میں دیکھا
ہم نے اسے ہر خار بیابان میں دیکھا
روشن ہے وہ ہر ایک ستارے میں زلیخا
جس نور کو تو نے سر کنعان میں دیکھا
برہم کرے جمعیت کونین جو پل میں
لٹکا وہ تری زلف پریشان میں دیکھا
واعظ تو سنے بولے ہے جس روز کی باتیں
اس روز کو ہم نے شب ہجران میں دیکھا
اے زخم جگر سودۂ الماس سے خو کر
کتنا وہ مزا تھا جو نمک دان میں دیکھا
سوداؔ جو ترا حال ہے اتنا تو نہیں وہ
کیا جانیے تو نے اسے کس آن میں دیکھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |