بنی تھی دل پہ کچھ ایسی کی اضطراب نہ تھا
Appearance
بنی تھی دل پہ کچھ ایسی کی اضطراب نہ تھا
غشی کو آپ نے سمجھا تھا خواب خواب نہ تھا
یہ حسن ظن ہے کہ بیخودؔ کبھی خراب نہ تھا
کسر تھی اتنی کہ آلودۂ شراب نہ تھا
ہماری آنکھ سے تم دیکھتے تو کھل جاتا
کہ آئینے میں بھی اس شکل کا جواب نہ تھا
ہزاروں اس دل بے آرزو نے ڈھائے ستم
بھلے کو اور مرے ساتھ کچھ عذاب نہ تھا
مجھے یہ رشک کہ دشمن کا ذکر کیوں آئے
انہیں یہ ناز مری بات کا جواب نہ تھا
یہ بت سمجھتے تھے بیخودؔ کو بار خاطر کیوں
کسی کے دل میں تو وہ خانماں خراب نہ تھا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |