Jump to content

بن ترے کیا کہیں کیا روگ ہمیں یار لگا

From Wikisource
بن ترے کیا کہیں کیا روگ ہمیں یار لگا
by شیخ قلندر بخش جرات
296746بن ترے کیا کہیں کیا روگ ہمیں یار لگاشیخ قلندر بخش جرات

بن ترے کیا کہیں کیا روگ ہمیں یار لگا
ڈر لگے نام لیے جس کا وہ آزار لگا

سب یہ کہتے ہیں مجھے تجھ سے جو دل یار لگا
ہائے کیا اس کو جوانی میں یہ آزار لگا

ہم دوانوں کا یہ ہے دشت جنوں میں رتبہ
کہ قدم رکھتے ہی آ پاؤں سے ہر خار لگا

کہیے کیوں کر نہ اسے بادشہ کشور حسن
کہ جہاں جا کے وہ بیٹھا وہیں دربار لگا

قدر پھر اپنی ہو کیا اس کے خریداروں میں
روز و شب جس کی گلی میں رہے بازار لگا

کون سا دن وہ کٹا مجھ پہ کہ اے تیغ فراق
زخم اک تازہ مرے دل پہ نہ ہر بار لگا

دل میں اب اس کے جو لہر آئی ہے گھر جانے کی
تو بھی رونے کی جھڑی دیدۂ خوں بار لگا

متصل تو جو مرا خون جگر پیتا ہے
کیوں غم عشق یہ کیا تجھ کو مزے دار لگا

تیز دستیٔ جنوں آج ہے ایسی ہی کہ بس
نہ رہا اپنے گریباں میں کوئی تار لگا

اس زمیں میں غزل اک اور بھی پڑھ اے جرأتؔ
خوب انداز کے اب کہنے تو اشعار لگا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.