بن دیکھے اس کے جاوے رنج و عذاب کیوں کر
Appearance
بن دیکھے اس کے جاوے رنج و عذاب کیوں کر
وہ خواب میں تو آوے پر آوے خواب کیوں کر
پاس اس نے جو بٹھایا دل اور تلملایا
اب جائے گا خدایا یہ اضطراب کیوں کر
وہ جب سے ہے سفر میں دل مضطرب ہے بر میں
بیٹھیں ہم اپنے گھر میں خانہ خراب کیوں کر
ساقی فراق جاناں حلق اپنے کا ہے درباں
اترے گلے سے پھر یاں قرط شراب کیوں کر
غمگیں ہیں جس کے غم سے واقف نہیں وہ ہم سے
یا رب پھر اس الم سے ہو صبر و تاب کیوں کر
واں ہے سوال ہر دم رکھیے ملاپ کم کم
حیران ہیں کہ دیں ہم اس کا جواب کیوں کر
چھوٹا ہے سن تمہارا مکھڑا ہے پیارا پیارا
پھر ہو بھلا گوارا شرم و حجاب کیوں کر
مجھ کو تو ہے یہ حیرت ایسی رہی جو عصمت
تو ہوگا صرف عشرت عہد شباب کیوں کر
اب طور کی تو اپنے جرأتؔ غزل سنا دے
دیکھیں تو اس کے ہوں گے شعر انتخاب کیوں کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |