بوئیے مزرع دل میں جو عنایات کے بیج
Appearance
بوئیے مزرع دل میں جو عنایات کے بیج
تو نہ ہوں سبز کبھی اپنی شکایات کے بیج
ہم نے اس مزرع ہستی میں کیے ہیں جو عمل
ایک دن کھینچیں گے سر ان کی مکافات کے بیج
آہ دہقان فلک کی کہوں کیا بد تخمی
خاک آدم میں یہ نت بووے ہے آفات کے بیج
باغباں جب تئیں ہاتھ آوے ترے بذر البنج
میری تربت پہ نہ بو اور نباتات کے بیج
ولد القحبہ سے پوچھو نہ، تری ذات ہے کیا
بیج میں اس کے ہیں مخلوط کئی ذات کے بیج
داغ سینے کے مرے طرفہ دکھاتے ہیں بہار
ہیں یہ بوئے ہوئے کس نخل طلسمات کے بیج
بستر شیخ پہ جو کونچ کی پھلیاں نکلیں
تھے چھپائے ہوئے شاید اسی بد ذات کے بیج
ان کو کیا ہووے ہے جز رزق پریشاں حاصل
جا بجا بوتے پھریں ہیں جو ملاقات کے بیج
مصحفیؔ اس سے بھی بہتر غزل اک اور سنا
وادیٔ فکر میں بو کر تو خیالات کے بیج
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |