بو کہ ہو سوئے باغ نکلے ہے
Appearance
بو کہ ہو سوئے باغ نکلے ہے
باؤ سے اک دماغ نکلے ہے
ہے جو اندھیر شہر میں خورشید
دن کو لے کر چراغ نکلے ہے
چوب کاری ہی سے رہے گا شیخ
اب تو لے کر چماغ نکلے ہے
دے ہے جنبش جو واں کی خاک کو باؤ
جگر داغ داغ نکلے ہے
ہر سحر حادثہ مری خاطر
بھر کے خوں کا ایاغ نکلے ہے
اس گلی کی زمین تفتہ سے
دل جلوں کا سراغ نکلے ہے
شاید اس زلف سے لگی ہے میرؔ
باؤ میں اک دماغ نکلے ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |