بگڑنے سے تمہارے کیا کہوں میں کیا بگڑتا ہے
بگڑنے سے تمہارے کیا کہوں میں کیا بگڑتا ہے
کلیجا منہ کو آ جاتا ہے دل ایسا بگڑتا ہے
شب غم میں پڑے تنہا تسلی دل کی کرتے ہیں
یہی عالم کا نقشہ ہے سدا بنتا بگڑتا ہے
وہ یاد آتا ہے عالم وصل کی شب کا وہ آرائش
وہ کہنا چھو نہ اس دم زلف کا حلقا بگڑتا ہے
ہمارے اٹھ کے جانے میں تری کیا بات بنتی ہے
ہمارے یاں کے رہنے میں ترا کیا کیا بگڑتا ہے
وہ کچھ ہو جانا رنجش اس پری سے باتوں باتوں میں
وہ کہنا پھیر کر منہ یہ تو کچھ اچھا بگڑتا ہے
جو بعد از عمر خط لکھا تو یہ تقدیر کا لکھا
عبارت گر کہیں بنتی ہے تو معنا بگڑتا ہے
اگر خاموش رہتا ہوں تو جی پر میرے بنتی ہے
اگر کچھ منہ سے کہتا ہوں تو وہ کیسا بگڑتا ہے
سفارش پر بگڑ کر ہائے وہ اس شوخ کا کہنا
منا لیتا اسے میں پر مرا شیوہ بگڑتا ہے
نظامؔ اس کی عنایت ہے تو پھر کس بات کا غم ہے
بناتا ہے وہ جس کا کام کب اس کا بگڑتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |