Jump to content

بھائی بھتیجے خویش و پسر یاور اور یار

From Wikisource
بھائی بھتیجے خویش و پسر یاور اور یار
by میر تقی میر
313529بھائی بھتیجے خویش و پسر یاور اور یارمیر تقی میر

بھائی بھتیجے خویش و پسر یاور اور یار
جاویں گے مارے آنکھوں کے آگے سب ایک بار
ناچار اپنے مرنے کا ہوگا امیدوار
ہے آج رات اور یہ مہمان روزگار
فردا حسین می شود از دہر ناامید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رو می شوی سفید

یک دم کہ تیری ہستی میں ہوجائے گا غضب
سادات مارے جائیں گے دریا پہ تشنہ لب
برسوں فلک کے رونے کا پھر ہے یہی سبب
مت آ عدم سے عالم ہستی میں زینہار
فردا حسین می شود از دہر ناامید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رو می شوی سفید

ماریں گے تیر شام کے نامرد سارے لوگ
دیویں گے ساتھ اس کا جنھوں نے لیا ہے جوگ
تا حشر خلق پہنے رہے گی لباس سوگ
ہوگا جہاں جوان سیہ پوش و سوگوار
فردا حسین می شود از دہر ناامید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رو می شوی سفید

اکبر مرے گا جان سے قاسم بھی جائے گا
عباس دل جہان سے اپنا اٹھائے گا
اصغر بغل میں باپ کے اک تیر کھائے گا
شائستہ ایسے جور کا وہ طفل شیرخوار
فردا حسین می شود از دہر ناامید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رو می شوی سفید

اے کاش کوئی روز شب تیغ شب رہے
تا اور بھی جہاں میں وہ عالی نسب رہے
لیکن عزیز جس کے مریں سب وہ کب رہے
بے چارہ سینہ خستہ و بے یار و بے دیار
فردا حسین می شود از دہر ناامید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رو می شوی سفید

ذات مقدس ابن علی کی ہے مغتنم
اک دم میں اس کے ہوویں الٰہی ہزار دم
کیا شب رہے تو ہووے ہے ایام میں سے کم
آتا ہے کون عالم خاکی میں بار بار
فردا حسین می شود از دہر ناامید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رو می شوی سفید

کاکل میں تیرے فتنے ہیں ہر اک شکن کے ساتھ
ہنگامہ کب رہا ہے ترے دم زدن کے ساتھ
رہ کوئی دن عدم ہی میں رنج و محن کے ساتھ
یہ بات دونوں جمع میں رکھتی ہے اشتہار
فردا حسین می شود از دہر ناامید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رو می شوی سفید

جلوے میں تیرے سیکڑوں جلووں کی ہے فنا
یعنی سحر پہ آنا قیامت کا ہے رہا
دن ہوگیا کہ سبط نبی مرنے کو چلا
ساتھ اپنے دے چکا ہے تلف ہونے کا قرار
فردا حسین می شود از دہر ناامید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رو می شوی سفید

آب فرات پر تو یہ شب دن نہ ہو کبھی
خوں ریز ورنہ ہونے لگے گا بہم ابھی
سید تڑپ کے پیاس سے مر جائیں گے سبھی
پیغمبر خدا ہی کا پروردۂ کنار
فردا حسین می شود از دہر ناامید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رو می شوی سفید

دن شب کو کس امید کے اوپر کرے بھلا
جو جانتا ہو یہ کہ ستم ہوگا برملا
نکلے گی تیغ جور کٹے گا مرا گلا
اے واے دل میں اپنے لیے حسرتیں ہزار
فردا حسین می شود از دہر ناامید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رو می شوی سفید

ایسا نہ ہو کہیں کہ نکل آوے آفتاب
جو وہ غیور مرنے میں اپنے کرے شتاب
دے بیٹھے سر کو معرکے میں کھا کے پیچ و تاب
تر خوں میں دونوں گیسو ہوں تن پر پڑے غبار
فردا حسین می شود از دہر ناامید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رو می شوی سفید

جس دم خط شعاعی ہوئے رونق زمیں
افگار ہوگی نیزۂ خطی سے وہ جبیں
ہوویں گے جمع پیادے سوار آن کر وہیں
ہوگا جدا وہ گھوڑے سے مجروح بے شمار
فردا حسین می شود از دہر ناامید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رو می شوی سفید

لوہو جبیں کے زخم سے جاوے گا کرکے جوش
فرق مبارک اس کے میں مطلق نہ ہوگا ہوش
سجدے میں ہو رہے گا جھکا سر کے تیں خموش
آنے کا اپنے آپ میں کھینچے گا انتظار
فردا حسین می شود از دہر ناامید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رو می شوی سفید

خورشید کی بلند نہ ہو تیغ خوں فشاں
ہے درمیاں نبیؐ کے نواسے کا پاے جاں
ایسا اگر ہوا تو قیامت ہوئی عیاں
وہ حلق تشنہ ہوگا تہ تیغ آبدار
فردا حسین می شود از دہر ناامید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رو می شوی سفید

روشن ہوا جو روز تو اندھیر ہے ندان
میداں میں صاف ہو کے کھڑا دے چکے گا جان
ناموس کی پھر اس کے نہ عزت ہے کچھ نہ شان
اک شش جہت سے ہوگی بلا آن کر دوچار
فردا حسین می شود از دہر ناامید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رو می شوی سفید

پھر بعد قتل اس کے غضب ایک ہے یہ اور
بختی چرخ راہ چلے گا انھوں کے طور
شیوہ جفا شعار ستم طرز جن کی جور
عابد کے دست بستہ میں دی جائے گی مہار
فردا حسین می شود از دہر ناامید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رو می شوی سفید

مردان اہل بیت جو ہوں گے مریں گے سب
اس کے اثاث بیت کو غارت کریں گے سب
ناموس کے جو لوگ ہیں سو دکھ بھریں گے سب
ان قیدیوں کی لوہو میں ہووے گی رہگذار
فردا حسین می شود از دہر ناامید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رو می شوی سفید

خورشید سا سر اس کا سناں پر چڑھائیں گے
عالم کو دن دیے ہی سیہ کر دکھائیں گے
بیٹے کے تیں سوار پیادہ چلائیں گے
ہوگا عنان دل پہ نہ کچھ اس کا اختیار
فردا حسین می شود از دہر ناامید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رو می شوی سفید

پیکر میں ایک کشتہ کے ہوگی نہ نیم جاں
خیل و حشم کا اس کے نہ پاویں گے کچھ نشاں
شوکت کہاں سر اس کا کہاں جاہ وہ کہاں
یہ جاے اعتبار ہے کیا یاں کا اعتبار
فردا حسین می شود از دہر ناامید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رو می شوی سفید

صاحب موئے اسیر ہوئے شام جائیں گے
سر کو جھکائے شرم سے ہر گام جائیں گے
ناچار رنج کھینچتے ناکام جائیں گے
لطف خداے عزوجل کے امیدوار
فردا حسین می شود از دہر ناامید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رو می شوی سفید

لازم ہے خونچکاں روش گفتگو سے شرم
کر اس نمود کرنے کی ٹک آرزو سے شرم
تجھ کو مگر نہیں ہے محمدؐ کے رو سے شرم
بے خانمان و بے دل و بے خویش و بے تبار
فردا حسین می شود از دہر ناامید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رو می شوی سفید

راہ رضا میں عاقبت کار سر گیا
ایسی گھڑی چلا کہ مدینے نہ پھر گیا
جوں آفتاب جانب شام آکے گھر گیا
خاطرشکستہ غم زدہ آزردہ دل فگار
فردا حسین می شود از دہر ناامید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رو می شوی سفید

آثار دکھ کے ہیں در و دیوار سے عیاں
چھایا ہے غم زمین سے لے تا بہ آسماں
کچھ میرؔ ہی کے چہرے پہ آنسو نہیں رواں
آیا ہے ابر شام سے روتا ہی زار زار
فردا حسین می شود از دہر ناامید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رو می شوی سفید


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.