Jump to content

بھولا ہوں میں عالم کو سرشار اسے کہتے ہیں

From Wikisource
بھولا ہوں میں عالم کو سرشار اسے کہتے ہیں
by امانت لکھنوی
303627بھولا ہوں میں عالم کو سرشار اسے کہتے ہیںامانت لکھنوی

بھولا ہوں میں عالم کو سرشار اسے کہتے ہیں
مستی میں نہیں غافل ہشیار اسے کہتے ہیں

گیسو اسے کہتے ہیں رخسار اسے کہتے ہیں
سنبل اسے کہتے ہیں گلزار اسے کہتے ہیں

اک رشتۂ الفت میں گردن ہے ہزاروں کی
تسبیح اسے کہتے ہیں زنار اسے کہتے ہیں

محشر کا کیا وعدہ یاں شکل نہ دکھلائی
اقرار اسے کہتے ہیں انکار اسے کہتے ہیں

ٹکراتا ہوں سر اپنا کیا کیا در جاناں سے
جنبش بھی نہیں کرتی دیوار اسے کہتے ہیں

دل نے شب فرقت میں کیا ساتھ دیا میرا
مونس اسے کہتے ہیں غم خوار اسے کہتے ہیں

خاموش امانتؔ ہے کچھ اف بھی نہیں کرتا
کیا کیا نہیں اے پیارے اغیار اسے کہتے ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.