Jump to content

بھویں چڑھی ہیں اور ہے تیور جھکا ہوا

From Wikisource
بھویں چڑھی ہیں اور ہے تیور جھکا ہوا
by مرزا اظفری
316454بھویں چڑھی ہیں اور ہے تیور جھکا ہوامرزا اظفری

بھویں چڑھی ہیں اور ہے تیور جھکا ہوا
کچھ آج بولتا ہے وہ ہم سے رکا ہوا

جو چاہتا ہے دل کو مرے دل دہی کرے
سودا یہ ہے قدیم سے یوں ہی چکا ہوا

اوسوں گئی ہے پیاس کہیں دیدۂ نمیں
بجھتا ہے آنسوؤں سے کہاں دل پھنکا ہوا

ایوب صابر اور وو کنعاں کے پیر سے
میرے سے زور و شور کا صبر و بکا ہوا

ان چتونوں چرائے دبے پاؤں اظفریؔ
دیکھو کدھر چلا ہے چھپا اور لُکا ہوا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.