Jump to content

بہار آئی ہے سوتے کو ٹک جگا دینا

From Wikisource
بہار آئی ہے سوتے کو ٹک جگا دینا
by اشرف علی فغاں
302176بہار آئی ہے سوتے کو ٹک جگا دینااشرف علی فغاں

بہار آئی ہے سوتے کو ٹک جگا دینا
جنوں ذرا مری زنجیر کو ہلا دینا

ترے لبوں سے اگر ہو سکے مسیحائی
تو ایک بات میں جیتا ہوں میں جلا دینا

اب آگے دیکھیو جیتوں نہ جیتوں یا قسمت
مری بساط میں دل ہے اسے لگا دینا

رہوں نہ گرمیٔ مجلس سے میں تری محروم
سپندوار مجھے بھی ذرا تو جا دینا

خدا کرے تری زلف سیہ کی عمر دراز
کبھی بلا مجھے لینا کبھی دعا دینا

برنگ غنچہ زر گل کے تئیں گرہ مت باندھ
فغاںؔ جو ہاتھ میں آوے اسے اڑا دینا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.