Jump to content

بہت سے مدعی نکلے مگر جاں باز کم نکلے

From Wikisource
بہت سے مدعی نکلے مگر جاں باز کم نکلے
by مرزا محمد ہادی رسوا
317736بہت سے مدعی نکلے مگر جاں باز کم نکلےمرزا محمد ہادی رسوا

بہت سے مدعی نکلے مگر جاں باز کم نکلے
پس مجنوں ہزاروں عاشقوں میں ایک ہم نکلے

نہیں ممکن کسی سے حسن کی باریکیاں حل ہوں
ترے ہر تار گیسو میں ہمارے پیچ و خم نکلے

یہ صورت ہو تو اپنا خاتمہ بالخیر ہو جائے
ادھر ہم سر جھکائیں اور ادھر تیغ دو دم نکلے

ہمیں ارمان ہے اس آستاں پر زندگی گزرے
اسی حسرت میں جیتے ہیں کہ ان قدموں پہ دم نکلے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.