بہشت بریں
خدا سے دعا بہر دنیا کریں گے
غلط ہے کہ ہم فکر عقبیٰ کریں گے
بڑے ہو کے کونسل میں جایا کریں گے
تو دل سے یہ اقرار پکا کریں گے
کہ جنت کی خاطر نہ جھگڑا کریں گے
بہشت بریں لے کے ہم کیا کریں گے
بہشت بریں کیا ہے بس ایک گلشن
فرشتوں کا دیدار حوروں کے درشن
ہر اک جنتی بے ہنر اور بے فن
نہ بزم ادب اور نہ ریڈیو سٹیشن
کہاں ہم غزل اپنی گایا کریں گے
بہشت بریں لے کے ہم کیا کریں گے
نہ ساماں وہاں کوئی وجہ مسرت
نہ عشق و محبت کی واں کوئی صورت
ڈنر سوٹ کس وقت پہنا کریں گے
بہشت بریں لے کے ہم کیا کریں گے
فقط خشک ملا اور اللہ اکبر
پرے زاہدوں کے سر حوض کوثر
نہ گھوڑا نہ گاڑی نہ ٹانگہ نہ موٹر
نہ شملہ پہاڑی نہ سنما نہ تھیٹر
کہاں شام اپنی گزارا کریں گے
بہشت بریں لے کے ہم کیا کریں گے
سنا ہے وہاں شاعری بھی نہ ہوگی
اور عشاق کی بے کلی بھی نہ ہوگی
بلا سے جو یہ دل لگی بھی نہ ہوگی
ستم تو یہ ہے لانڈری بھی نہ ہوگی
کہاں اپنے کپڑے دھلایا کریں گے
بہشت بریں لے کے ہم کیا کریں گے
وہاں ہوں گے بے کار قرطاس و خامہ
نہ پیغام الفت نہ مکتوب نامہ
نہ ناول نویسی نہ شعر اور ڈرامہ
فقط ہاتھ میں ہوگا اک پائجامہ
سئیں گے اسے اور ادھیڑا کریں گے
بہشت بریں لے کے ہم کیا کریں گے
زباں بھی وہاں ہوگی اہل عرب کی
یہاں ہم نے سیکھی ہے انگلش غضب کی
زباں کیسے حوروں کی سمجھا کریں گے
بہشت بریں لے کے ہم کیا کریں گے
حقیقت کو جنت کی ہم خاک جانیں
کہ اتنی ہی باتیں ہیں جتنی زبانیں
مگر آپ اس بات کو راست مانیں
نہ ہوں گی کہیں ساڑھیوں کی دکانیں
یہ مانا کہ جنت میں ہے خوب رونق
کھلے ہیں چنبیلی گلاب اور زنبق
مگر ہوگا اپنے لیے وہ لق و دق
نہیں ہوں گے اس میں کبھی حاجی لق لقؔ
فرشتے ہمیں کب ہنسایا کریں گے
بہشت بریں لے کے ہم کیا کریں گے
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |