Jump to content

بہ صد آرزو جو وہ آیا تو یہ حجاب عشق سے حال تھا

From Wikisource
بہ صد آرزو جو وہ آیا تو یہ حجاب عشق سے حال تھا
by شیخ قلندر بخش جرات
296748بہ صد آرزو جو وہ آیا تو یہ حجاب عشق سے حال تھاشیخ قلندر بخش جرات

بہ صد آرزو جو وہ آیا تو یہ حجاب عشق سے حال تھا
کہ ہزاروں دل میں تھیں حسرتیں اور اٹھانا آنکھ محال تھا

رہا شب جو ہم سے جدا کوئی تو کہے یہ واقعہ کیا کوئی
شب ہجر تھی کہ بلا کوئی جسے دیکھتے ہی وصال تھا

رخ یار تا نہ پڑا نظر رہے ہم الم سے یہ نوحہ گر
کہ ہمارے رنج و ملال پر تو ملال کو بھی ملال تھا

کرے کون اس سے برابری مہ و زہرہ سب کو تھی ہم سری
دم صبح دیکھ ستم گری رخ مہر ذرہ مثال تھا

شب وصل دیکھ کے خواب میں میں پڑا تھا سخت عذاب میں
تھے ہزار سوچ جواب میں عجب اس کا مجھ سے سوال تھا

مرے جوش اشک سے بہرہ ور ہوئے کل جہان کے بحر و بر
نہ برستی آج یہ چشم تر تو خدا نخواستہ کال تھا

جو نمود کرتے ہی آپ سے لگے بیٹھنے وہ شتاب سے
تو یہ پوچھے کوئی حباب سے کہ پھلائے اپنے یہ گال تھا

ہوا میں بھی داخل کشتگاں تو عبث تو ہووے ہے سر گراں
کہ مرے گلے کی طرف میاں ترے آب تیغ کا ڈھال تھا

دیا کھا کے آپ نے پان جو دل مبتلا ہوا سرخ رو
اسے سمجھا پیٹ کا بوجھ وہ جو تمہارے منہ کا اگال تھا

جو مریض تھا پڑا جاں بہ لب خبر اور کچھ نہیں اس کی اب
مگر اتنا کہتے ہیں لوگ سب کہ بڑا یہ نیک خصال تھا

جو چمن سے دور قفس ہوا تو میں اور اسیر ہوس ہوا
یہ جو ظلم اب کے برس ہوا یہی قہر اگلے بھی سال تھا

نہیں چاہتا ہے اب آسماں کہ ہم اور وہ ہوں بہ یک مکاں
کہیں آ گیا جو وہ شب کو یاں کہ بلانا جس کا محال تھا

تو یہ رنگ چنبر چرخ کا نظر آئے تھا مجھے برملا
کبھی تھا سیہ کبھی زرد تھا کبھی سبز تھا کبھی لال تھا

نہ کسی نے قدر کی جرأتؔ اب کہے شعر گرچہ عجب عجب
جو نہ ہوں گے ہم تو کہیں گے سب کہ بڑا یہ اہل کمال تھا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.