Jump to content

بیٹھے تو پاس ہیں پر آنکھ اٹھا سکتے نہیں

From Wikisource
بیٹھے تو پاس ہیں پر آنکھ اٹھا سکتے نہیں
by شیخ قلندر بخش جرات
296750بیٹھے تو پاس ہیں پر آنکھ اٹھا سکتے نہیںشیخ قلندر بخش جرات

بیٹھے تو پاس ہیں پر آنکھ اٹھا سکتے نہیں
جی لگا ہے پہ ابھی ہاتھ لگا سکتے نہیں

دور سے دیکھ وہ لب کاٹتے ہیں اپنے ہونٹھ
ہے ابھی پاس ادب ہونٹھ ہلا سکتے نہیں

تکتے ہیں اس قد و رخسار کو حسرت سے اور آہ
بھینچ کر خوب سا چھاتی سے لگا سکتے نہیں

دل تو ان پاؤں پہ لوٹے ہے مرا وقت خرام
شب کو دزدی سے بھی پر ان کو دبا سکتے نہیں

چور سے رات کھڑے رہتے ہیں اس در سے لگے
پر جو مطلوب ہے وہ جنس چرا سکتے نہیں

ریجھتے ان کی اداؤں پہ ہیں کیا کیا لیکن
مارے اندیشے کے گردن بھی ہلا سکتے نہیں

دیکھ رہتے ہیں وہ آئینۂ زانو اس کا
پر کسی شکل سے زانو کو بھڑا سکتے نہیں

قاعدے کیا ہمیں معلوم نہیں الفت کے
بے کم و کاست مگر ان کو پڑھا سکتے نہیں

چپکے تک رہتے ہیں رنگ اس کا بھبوکا سا ہم
آہ پر دل کی لگی اپنی بجھا سکتے نہیں

کیا غضب ہے کہ وہی بولے تو بولے از خود
ہم انہیں کیوں کہ بلاویں کہ بلا سکتے نہیں

گرچہ ہم خانہ ہیں جرأتؔ پہ ہمارے ایسے
بخت سوئے کہ کہیں ساتھ سلا سکتے نہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.