بیکسیٔ شب ہجراں کی مجھے تاب نہیں
Appearance
بیکسیٔ شب ہجراں کی مجھے تاب نہیں
کاش دشمن ہی چلے آئیں جو احباب نہیں
تجھ کو اے بخت سیہ آگ لگا کر دیکھوں
شب ہجراں میں اگر جلوہ مہتاب نہیں
دیکھ بت خانے میں تصویر کا عالم اے شیخ
یاں مصلیٰ نہیں منبر نہیں محراب نہیں
نامہ بر مجھ سے یہ کہتا ہے کہ تم تو کیا ہو
بادشہ بھی تو وہاں قابل القاب نہیں
نہ ملے مجھ کو مرے حال پہ رونے والے
عیش کیسا کہ یہاں غم کے بھی اسباب نہیں
حال دل جس سے کہا اس نے کہا بس خاموش
داغؔ اس درد کے سننے کی ہمیں تاب نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |