Jump to content

بے دیے لے اڑا کبوتر خط

From Wikisource
بے دیے لے اڑا کبوتر خط
by سید یوسف علی خاں ناظم
301897بے دیے لے اڑا کبوتر خطسید یوسف علی خاں ناظم

بے دیے لے اڑا کبوتر خط
یوں پہنچتا ہے اوپر اوپر خط

پرزے پرزے ہوا سراسر خط
ایک خط کے بنے بہتر خط

قتل ہوتے ہیں نامہ بر ہر روز
لاش پر لاش اور خط پر خط

روز اک نامہ بر کہاں سے آئے
یوں ہی رکھ چھوڑتا ہوں لکھ کر خط

کیا قلم نے شرر فشانی کی
پھلجڑی بن گیا مرا ہر خط

چار ہیں گے کل ان کے ہم سایے
لکھ کے دے آئے آج ہم سر خط

جو کہ لیتے نہیں ہیں میرا نام
وہ لکھیں گے مجھے مقرر خط

کس طرح سر نوشت کو بدلوں
خط میں مل جائے غیر کے گر خط

پڑھ تو لیں گے وہ نامہ میرا بھی
آتے رہتے ہیں اس کے اکثر خط

دیکھ کر نام پھینک دیں گے ضرور
پھر نہ لیں گے کبھی مکرر خط

ڈاک گھر میں ٹکٹ نہیں باقی
ناظمؔ اتنے گئے ہیں خط پر خط


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.