بے وفا گو ملے نہ تو مجھ کو
Appearance
بے وفا گو ملے نہ تو مجھ کو
بس ہے تیری یہ آرزو مجھ کو
گردش چرخ سے نہیں پردا
سر پہ چہیے وہ خاک کو مجھ کو
زاہدا ہے مری نماز نیاز
خون دل رونا ہے وضو مجھ کو
ناصحا جا کہ ذکر عشق سوا
خوش نہیں آتی گفتگو مجھ کو
بن رہا ہوں میں عشق کا مظلوم
نہ ستا اے رقیب تو مجھ کو
تجھ سے چاہوں ہوں ناز برداری
ہو گئی کچھ تری سی خو مجھ کو
صحبت غیر سے ہوا مکروہ
بیٹھنا تیرے روبرو مجھ کو
تجھ سے محروم یوں رہوں صد حیف
کیا کیا دل میں تھیں آرزو مجھ کو
یار ہرجائی نے کیا حسرتؔ
در بدر اور کو بہ کو مجھ کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |