تدبیر میں یارو نہیں تقصیر تمہاری
Appearance
تدبیر میں یارو نہیں تقصیر تمہاری
تقدیر مری ہو گئی تدبیر تمہاری
کیا مر گئے زنداں میں اسیران محبت
آواز نہیں دیتی ہے زنجیر تمہاری
تم آن کے سمجھاؤ مرے دل کو تو شاید
کر جائے نصیحت کوئی تاثیر تمہاری
رہتی ہے پریشاں جو سراسر یہ ہمیشہ
کس پیچ میں ہے زلف گرہ گیر تمہاری
جب داد سخن ملتی تمہیں حضرت عارفؔ
سنتا جو غزل آج کو یہ میرؔ تمہاری
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |