تری تیغ ابرو کی ٹک سامنے کر دیکھیں تو
Appearance
تری تیغ ابرو کی ٹک سامنے کر دیکھیں تو
بچے خورشید بھی رکھ منہ پہ سپر دیکھیں تو
میرے خورشید لقا دید کی ٹک رخصت دے
تیرے دیدار کو پھر ایک نظر دیکھیں تو
تیغ تولے ہوے کاندھے پہ جو آیا ہے سوار
او سجیلے مرے گھوڑے سے اتر دیکھیں تو
مر گیا جو اسے کہتے ہیں ہوا آج وصال
جی رچا زیست سے اس ہجر میں مر دیکھیں تو
بہہ چکا خانۂ دل آنکھ تک آ پہنچی سیل
روئے جا اور بھی اے دیدۂ تر دیکھیں تو
آ کے آنکھوں کا شبستاں مرا روشن کر دے
وہ دن آتا ہے کب اے نور بصر دیکھیں تو
ہے مثل غصہ اتر جاتا ہے پاؤں پہ گرے
قدموں پر اس کے بھلا سر کو بھی دھر دیکھیں تو
دن بہت بیت گئے گلیاں ہیں سونی تجھ بن
جانی بن ٹھن ذری آ جاؤ ادھر دیکھیں تو
سب کہیں گزری پہ گزری نہ کوئے دلبر میں
رہے جاں اظفریؔ اس سے بھی گزر دیکھیں تو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |