تری زلفوں میں دل الجھا ہوا ہے
Appearance
تری زلفوں میں دل الجھا ہوا ہے
بلا کے پیچ میں آیا ہوا ہے
نہ کیوں کر بوئے خوں نامے سے آئے
اسی جلاد کا لکھا ہوا ہے
چلے دنیا سے جس کی یاد میں ہم
غضب ہے وہ ہمیں بھولا ہوا ہے
کہوں کیا حال اگلی عشرتوں کا
وہ تھا اک خواب جو بھولا ہوا ہے
جفا ہو یا وفا ہم سب میں خوش ہیں
کریں کیا اب تو دل اٹکا ہوا ہے
ہوئی ہے عشق ہی سے حسن کی قدر
ہمیں سے آپ کا شہرا ہوا ہے
بتوں پر رہتی ہے مائل ہمیشہ
طبیعت کو خدایا کیا ہوا ہے
پریشاں رہتے ہو دن رات اکبرؔ
یہ کس کی زلف کا سودا ہوا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |