تری زلفوں نے بل کھایا تو ہوتا
Appearance
تری زلفوں نے بل کھایا تو ہوتا
ذرا سنبل کو لہرایا تو ہوتا
رخ بے داغ دکھلایا تو ہوتا
گل لالہ کو شرمایا تو ہوتا
چلے گا کبک کیا رفتار تیری
یہ انداز قدم پایا تو ہوتا
کہے جاتے وہ سنتے یا نہ سنتے
زباں تک حال دل آیا تو ہوتا
سمجھتا یا نہ اے آتشؔ سمجھتا
دل مضطر کو سمجھایا تو ہوتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |