Jump to content

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

From Wikisource
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں (1924)
by محمد اقبال
295923ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں1924محمد اقبال

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
کوئی بات صبرآزما چاہتا ہوں

یہ جنّت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سُنا چاہتا ہوں

کوئی دَم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل
چراغِ سحَر ہوں، بُجھا چاہتا ہوں

بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں، سزا چاہتا ہوں


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.