Jump to content

تسکین دل کا یہ کیا قرینہ

From Wikisource
تسکین دل کا یہ کیا قرینہ
by آرزو لکھنوی
318265تسکین دل کا یہ کیا قرینہآرزو لکھنوی

تسکین دل کا یہ کیا قرینہ
روکوں جو نالہ پھٹ جائے سینہ

بڑھتی امنگیں کیا پر بنیں گی
ہے کس ہوا میں دل کا سفینہ

ہیں کیا معمہ یہ آگ پانی
پیتا ہوں آنسو جلتا ہے سینہ

غم تجھ کو پیارا تو مجھ کو پیاری
دل کی تمنا نازک حسینہ

آج اس نے آنسو ہنس ہنس کے پونچھے
خشکی میں ابھرا ڈوبا سفینہ

تاریخ دل کی خود نقش دل ہے
کھا کھا کے چوٹیں چٹکا نگینہ

ٹوٹا ہوا دل الفت بھرا تھا
ڈھا کر عمارت پایا دفینہ

حد خرد سے ذات اس کی برتر
اونچی ہے منزل نیچا ہے زینہ

تم آرزوؔ ہو تم آرزوؔ ہو
پھر کیسی رنجش پھر کیسا کینہ


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.