تصور باندھتے ہیں اس کا جب وحشت کے مارے ہم
تصور باندھتے ہیں اس کا جب وحشت کے مارے ہم
تو پھر کرتے ہیں آپ ہی آپ کیا کیا کچھ اشارے ہم
کہے ہے یوں دل مضطر سے اس بن جان غم دیدہ
چلو تم رفتہ رفتہ آتے ہیں پیچھے تمہارے ہم
کئی بار اس نے دیکھا آج چشم قہر سے ہم کو
سزا وار عقوبت تو ہوئے اے بخت بارے ہم
نہ مانی دل نے اپنی اور نہ ہم نے بات ناصح کی
ہمیں کہہ کہہ کے ہارا وہ اسے کہہ کے ہارے ہم
وہ جب آئینہ دیکھے ہے تو کیا کیا مسکراتا ہے
سمجھ کر یہ کہ یعنی ہیں قیامت پیارے پیارے ہم
ملا لطف سخن کیا خاک ہم کو اس کی محفل میں
کہ چپ بیٹھے رہے جوں نقش دیوار اک کنارے ہم
ہوئے ہیں چاہنے والے تمہارے سیکڑوں پیدا
یہ سچ ہے جی کہ کس گنتی میں ہیں یاں اب بچارے ہم
کسی مہوش کے غم نے کر دیا نا طاقت ایسا ہی
کہ چھٹتے دیکھتے ہیں اکثر آنکھوں آگے تارے ہم
اٹھا کر آنکھ تو تم دیکھ لو یاں کوئی دیکھے ہے
ذرا قربان ہونے دو ہمیں صدقے تمہارے ہم
کریں کیا آہ اور کس سے کہیں ہم اپنی بے چینی
کہیں چین اب ترے ہاتھوں نہیں پاتے ہیں پیارے ہم
قرار اک جا نظر آتا نہیں ہے بے قراری میں
گل بازی کی صورت پھرتے ہیں بس مارے مارے ہم
ہمیں کیا خطرۂ جاں ہے کہ ہم ہیں نام کو جرأتؔ
نہ ہوں پھر کیوں کہ میدان محبت میں اتارے ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |