Jump to content

تصور باندھتے ہیں اس کا جب وحشت کے مارے ہم

From Wikisource
تصور باندھتے ہیں اس کا جب وحشت کے مارے ہم
by شیخ قلندر بخش جرات
296691تصور باندھتے ہیں اس کا جب وحشت کے مارے ہمشیخ قلندر بخش جرات

تصور باندھتے ہیں اس کا جب وحشت کے مارے ہم
تو پھر کرتے ہیں آپ ہی آپ کیا کیا کچھ اشارے ہم

کہے ہے یوں دل مضطر سے اس بن جان غم دیدہ
چلو تم رفتہ رفتہ آتے ہیں پیچھے تمہارے ہم

کئی بار اس نے دیکھا آج چشم قہر سے ہم کو
سزا وار عقوبت تو ہوئے اے بخت بارے ہم

نہ مانی دل نے اپنی اور نہ ہم نے بات ناصح کی
ہمیں کہہ کہہ کے ہارا وہ اسے کہہ کے ہارے ہم

وہ جب آئینہ دیکھے ہے تو کیا کیا مسکراتا ہے
سمجھ کر یہ کہ یعنی ہیں قیامت پیارے پیارے ہم

ملا لطف سخن کیا خاک ہم کو اس کی محفل میں
کہ چپ بیٹھے رہے جوں نقش دیوار اک کنارے ہم

ہوئے ہیں چاہنے والے تمہارے سیکڑوں پیدا
یہ سچ ہے جی کہ کس گنتی میں ہیں یاں اب بچارے ہم

کسی مہوش کے غم نے کر دیا نا طاقت ایسا ہی
کہ چھٹتے دیکھتے ہیں اکثر آنکھوں آگے تارے ہم

اٹھا کر آنکھ تو تم دیکھ لو یاں کوئی دیکھے ہے
ذرا قربان ہونے دو ہمیں صدقے تمہارے ہم

کریں کیا آہ اور کس سے کہیں ہم اپنی بے چینی
کہیں چین اب ترے ہاتھوں نہیں پاتے ہیں پیارے ہم

قرار اک جا نظر آتا نہیں ہے بے قراری میں
گل بازی کی صورت پھرتے ہیں بس مارے مارے ہم

ہمیں کیا خطرۂ جاں ہے کہ ہم ہیں نام کو جرأتؔ
نہ ہوں پھر کیوں کہ میدان محبت میں اتارے ہم


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.