Jump to content

تصویر و تصور

From Wikisource
تصویر و تصور
by جگر مراد آبادی
300040تصویر و تصورجگر مراد آبادی

وہ کب کے آئے بھی اور گئے بھی نظر میں اب تک سما رہے ہیں
یہ چل رہے ہیں، وہ پھر رہے ہیں، یہ آ رہے ہیں وہ جا رہے ہیں

وہی قیامت ہے قد بالا وہی ہے صورت، وہی سراپا
لبوں کو جنبش، نگہ کو لرزش، کھڑے ہیں اور مسکرا رہے ہیں

وہی لطافت، وہی نزاکت، وہی تبسم، وہی ترنم
میں نقش حرماں بنا ہوا تھا وہ نقش حیرت بنا رہے ہیں

خرام رنگیں، نظام رنگیں، کلام رنگیں، پیام رنگیں
قدم قدم پر، روش روش پر نئے نئے گل کھلا رہے ہیں

شباب رنگیں، جمال رنگیں، وہ سر سے پا تک تمام رنگیں
تمام رنگیں بنے ہوئے ہیں، تمام رنگیں بنا رہے ہیں

تمام رعنائیوں کے مظہر، تمام رنگینیوں کے منظر
سنبھل سنبھل کر سمٹ سمٹ کر سب ایک مرکز پر آ رہے ہیں

بہار رنگ و شباب ہی کیا ستارہ و ماہتاب ہی کیا
تمام ہستی جھکی ہوئی ہے، جدھر وہ نظریں جھکا رہے ہیں

طیور سرشار ساغر مل ہلاک تنویر لالہ و گل
سب اپنی اپنی دھنوں میں مل کر عجب عجب گیت گا رہے ہیں

شراب آنکھوں سے ڈھل رہی ہے، نظر سے مستی ابل رہی ہے
چھلک رہی ہے اچھل رہی ہے، پئے ہوئے ہیں پلا رہے ہیں

خود اپنے نشے میں جھومتے ہیں، وہ اپنا منہ آپ چومتے ہیں
خراب مستی بنے ہوئے ہیں، ہلاک مستی بنا رہے ہیں

فضا سے نشہ برس رہا ہے، دماغ پھولوں میں بس رہا ہے
وہ کون ہے جو ترس رہا ہے؟ سبھی کو میکش پلا رہے ہیں

زمین نشہ، زمان نشہ، جہان نشہ، مکان نشہ
مکان کیا؟ لا مکان نشہ، ڈبو رہے ہیں پلا رہے ہیں

وہ روئے رنگیں و موجۂ یم، کہ جیسے دامان گل پہ شبنم
یہ گرمیٔ حسن کا ہے عالم، عرق عرق میں نہا رہے ہیں

یہ مست بلبل بہک رہے ہیں، قریب عارض چہک رہے ہے
گلوں کی چھاتی دھڑک رہی ہے، وہ دست رنگیں بڑھا رہے ہیں

یہ موج و دریا، یہ ریگ و صحرا یہ غنچہ و گل، یہ ماہ و انجم
ذرا جو وہ مسکرا دیئے ہیں وہ سب کے سب مسکرا رہے ہیں

فضا یہ نغموں سے بھر گئی ہے کہ موج دریا ٹھہر گئی ہے
سکوت نغمہ بنا ہوا ہے، وہ جیسے کچھ گنگنا رہے ہیں

اب آگے جو کچھ بھی ہو مقدر، رہے گا لیکن یہ نقش دل پر
ہم ان کا دامن پکڑ رہے ہیں، وہ اپنا دامن چھڑا رہے ہیں

یہ اشک جو بہہ رہے ہیں پیہم، اگرچہ سب ہیں یہ حاصل غم
مگر یہ معلوم ہو رہا ہے، کہ یہ بھی کچھ مسکرا رہے ہیں

ذرا جو دم بھر کو آنکھ جھپکی، یہ دیکھتا ہوں نئی تجلی
طلسم صورت مٹا رہے ہیں، جمال معنی بنا رہے ہیں

خوشی سے لبریز شش جہت ہے، زبان پر شور تہنیت ہے
یہ وقت وہ ہے جگرؔ کے دل کو وہ اپنے دل سے ملا رہے ہیں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.