تعلیم
تعلیم سے ہماری مراد موافق عرف عام کے لکھنا پڑھنا سیکھنے سے ہے۔ ہر زمانہ میں لاکھوں کروڑوں آدمی مختلف مقاصد سے لکھنا پڑھنا سیکھتے رہے ہیں۔
عام مقصد جس کے سبب سے تعلیم پر توجہ ہوتی ہے، خواہ تعلیم پانے والے خود اس پر متوجہ ہوں یا اطفال کے مربیوں نے اطفال کی تعلیم پر توجہ کی ہو، یہ ہے کہ ان کے ذہن میں یہ بات سمائی ہوئی ہوتی ہے کہ ایک جاہل کندۂ نا تراش سے لکھا پڑھا آدمی زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ اور وہ تعلیم جس درجہ کی ہوئی ہو، زندگی کے کاروبار میں اس کے لیے نہایت مفید اور کار آمد ہوتی ہے۔
ان تعلیم پانے والوں میں لاکھوں آدمی تو ایسے ہوتے ہیں کہ ادنیٰ درجہ تعلیم تک پہونچ کر اور کچھ متوسط درجہ کی تعلیم تک پہونچ کر رہ جاتے ہیں اور چند ایسے ہوتے ہیں کہ متوسط درجہ کی تعلیم سے آگے بڑھتے ہیں اور اپنے مذاق کے موافق علم کی شاخوں میں سے کسی شاخ کی تکمیل پر مائل ہوتے ہیں۔ کوئی شاعر بننا چاہتا ہے، کوئی ادیب، کوئی فلسفہ میں ترقی کرتا ہے اور کوئی ریاضیات میں، اور کوئی دینیات میں، وعلی ھذا القیاس۔ مگر ہر ایک کے ساتھ حصول معاش کا خیال لگا رہتا ہے اور جو کچھ وہ حاصل کرتا ہے یا کرنا چاہتا ہے اس کو ذریعہ حصول معاش ضرور سمجھتا ہے۔
تعلیم بغیر اس کے کہ اس کے حاصل کرنے کے لیے کوئی زبان اختیار کی جاوے غیر ممکن ہے۔ جس زمانہ میں جس زبان کا عروج ہوتا ہے وہی زبان اس کے لیے اختیار کی جاتی ہے۔ یہ ایک کلیہ قاعدہ ہے کہ جس ملک میں جو زبان حکومت کرتی ہے اسی زبان کا عروج ہوتا ہے۔ خلفائے بنی امیہ اور بنی عباس کے زمانہ میں عربی زبان کا عروج تھا، ہر شخص اسی زبان میں علوم کو سیکھنا چاہتا تھا۔ ہندوؤں کے زمانے میں ہندوستان میں سنسکرت زبان کا عروج تھا، اسی کو لوگ اختیا ر کرتے تھے۔ جب مسلمانوں کی عملداری ہندوستان میں ہوئی تو فارسی کا عروج ہو ا۔ اور سب نے فارسی زبان میں تعلیم پانا اختیار کیا۔
اب ہندوستان میں انگریز ی حکومت ہے جس کی زبان انگریزی ہے، اور اسی زبان کو عروج ہے۔ اس لیے ہر شخص اسی زبان کے اختیار کرنے پر مائل ہے۔ ہاں مسلمانوں نے انگریزی زبان کے حاصل کرنے میں بہت کچھ کوتاہی کی۔ اس کے کچھ ہی سبب ہوں، مگر اس کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ وہ اپنی غلطی سے انگریزی زبان پڑھنے کو مخالف مذہب اسلام سمجھتے تھے۔ مگر جب سے یہ خیال کم ہو گیا یا دنیوی ضرورت نے انہیں مجبور کیا، ا سی وقت سے مسلمانوں نے بھی انگریزی زبان میں تعلیم اختیار کرنی شروع کر دی ہے۔ مگر بہت سے مسلمان مذہب کو دنیوی ضرورت سے مقدم سمجھتے ہیں۔ اور اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ان میں یہ خیال کہ انگریزی پڑھنی مذہب اسلام کے بر خلاف ہے، کم ہو گیا ہے۔
اکثر حکام کا اور نیز بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ لوگ صرف سرکاری نوکری حاصل کرنے کو انگریزی پڑھتے ہیں۔ مگر غور کرنے کی بات ہے کہ ہر سال ہندوستان کی یونیورسٹیوں سے سینکڑوں بی۔ اے اور ایم اے ڈگر ی پاتے ہیں اور ان کو یقین کامل ہوتا ہے کہ گورنمنٹ پاس اس قدر نوکریاں نہیں ہیں کہ وہ اس جم غفیر بی۔ اے اور ایم اے ڈگری یافتوں کو دے سکے۔ پس یقینی ڈگری یافتہ طالب علموں کو اس کا یقین ہے کہ سب کو سرکاری نوکری نہیں مل سکتی۔ با وصف اس یقین کے جو وہ انگریزی پڑھنے پر مشغول ہوتے ہیں تو ضرور ہے کہ سوائے ملازمت سرکاری کے اور کسی ذریعہ سے بھی ان کو معاش حاصل کرنے کا خیا ل ہے۔ یا اس بات کا یقین ہے کہ انگریزی پڑھا ہوا بن انگریزی پڑھے ہوئے سے دنیوی کاروبار کے لیے زیادہ مفید اور کار آمد ہے۔ بہر حال یہ بات غلط ہے کہ ہر ایک بی۔ اے اور ایم۔ اے سرکاری ملازمت حاصل کرنے کے لیے پڑھتا ہے اور نہ ملنے کے سبب سرکار سے ناراض ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کو پہلے سے یقین ہے کہ سرکار سب کو نوکری نہیں دے سکتی۔ ہاں جب موقع ہوتا ہے تو ہر ایک سرکار ی ملازمت ملنے کی کوشش کرتا ہے جو اس کو ضرور کرنی چاہیے۔
اس زمانہ کی تعلیم میں جو بذریعہ انگریزی زبان کے ہوتی ہے اور اگلے زمانہ کی تعلیم میں جو بذریعہ عربی زبان کے ہوتی تھی یہ فرق ہے کہ اگلے زمانہ میں تعلیم کا سامان ایسا موجود اور مہیا تھا کہ ہر شخص جو علم کی کسی شاخ میں یا شاخوں میں اس زمانہ کے موافق اعلی درجہ کی تعلیم پانا اور اس فن کا ماسڑ ہونا چاہے تو ہو سکتا تھا اور سوسائٹی جو اس زمانے میں ہوتی تھی اس تعلیم کی مدد کرتی تھی۔ اور اس پر عمدہ اخلاقی اثر ڈال کر اس کو اس سوسائٹی کے لائق کر لیتی تھی۔ اگلے زمانے کی سوسائٹی بلحاظ اخلاق اور حسن معاشرت ایسی عمدہ تھی کہ اس میں کوئی نقص اس زمانہ میں بھی نہیں نکالا جا سکتا مگر افسوس ہے کہ زمانہ کے انقلاب کے ساتھ وہ قائم نہ رہی۔
اس زمانہ کی تعلیم جو انگریزی زبان کے ذریعہ سے ہندوستان میں ہوتی ہے اس کے لیے کوئی ایسا سامان نہیں ہے کہ جو شخص کسی علم کی شاخ میں اعلی درجہ کی تعلیم پانا چاہے تو اعلی درجہ کی تعلیم پاکر اس فن کا ماسٹر ہو سکے، ہندوستان میں اعلی تعلیم دینے والی وہ یونیورسٹیاں ہیں جو ہندوستان میں موجود ہیں۔ وہ بلا شبہ بی۔ اے اور ایم۔ اے کی ڈگریاں دیتی ہیں، مگر اس تعلیم کو اعلی تعلیم کہنا ہمارے نزدیک محض نا واجب ہے۔ بلکہ وہ علم کی بعض شاخوں میں اوسط درجے کی تعلیم ہے اور شاخوں میں ادنی درجہ کی تعلیم کا رتبہ رکھتی ہے۔
بالفعل جو باتباع احکام یونیورسٹیوں کے اس کے ماتحت کالجوں میں دی جاتی ہے وہ زیادہ تر کتا بی اور دماغی تعلیم سے متعلق ہے۔ اس قسم کی تعلیم کا نتیجہ ضرور وہی ہونا چاہیے جو مسٹر کرول نے اپنے لکچر میں بیان کیا ہے اور جس کو اودھ اخبار نے اردو زبان میں لکھا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ’’تعلیم کا منشاء یہ نہیں ہے کہ چند آدمیوں کی دولت بڑھ جائے یا آنکہ غربا کے بمقابلہ باقی ماندہ اشخاص کی زیادہ رعایت کی جائے۔ اور نہ تعلیم کا منشاء یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے لوگ صرف اپنی باہمی محافظت کریں یا سوداگری اور تجارت کو ہی کو ترقی دیں۔ بلکہ تعلیم کی خاص غایت اور اصل منشاء یہ ہے کہ لوگ نیک محضر اور عمدہ قسم کے باشندے ہو جاویں، اور وہ خاموشی حاصل کریں جو زندگی کے بے داغ رہنے سے حاصل ہو سکتی ہے۔ اور لوگوں کے سوشیل اور اخلاقی خصائل کی تکمیل کریں۔ اور ان بھاری اور عمدہ کاموں کا حوصلہ دلائیں جن سے ملک کی عزّت اور زینت ہوتی ہے۔‘‘
سر ولیم میکورتھ ینگ نے جو ڈگری یافتہ طالب علموں کو مخاطب کرکے فرما یا اس کا حاصل بھی وہی ہے جو مسٹر کرول نے اپنے لکچر میں کہا تھا۔ سر ولیم میکورتھ ینگ نے ڈگری یافتہ طالب علموں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ’’ان کی ڈگریاں اس بات کے لیے ہیں کہ وہ اپنے یومیہ معاملات اور گفتگو میں معزز برتاؤ اختیار کریں، اخلاق اور عمدہ تعلیم کی ترقی میں مدد دیں۔ سوشیل انتظام اور اپنے ہم جنسوں کی بہبودی کے قائم رکھنے میں کوشاں رہیں۔ المختصر ایک بھاری سلطنت کے بر آوردہ شہریوں کے فرائض ادا کرتے رہیں۔‘‘
مگر ہماری رائے میں اخلاقی تعلیم صرف کتابوں کی تعلیم سے حاصل نہیں ہوتی، بلکہ عمدہ سوسائٹی اس کی تعلیم دیتی ہے۔ ہندوستان میں جو قدیم سوسائٹی علماء اور نیک خدا پرست رحم دل، نیک خصلت لوگوں سے مرکب تھی وہ مدت ہوئی کہ مردہ ہو گئی ہے اور نئی سوسائٹی جو زمانہ حال کے موافق ہو، اب تک قائم نہیں ہوئی، یا مکمل نہیں ہوئی۔ اس لئے وہ نتائج جس کا ذکر مسٹر کرول نے اپنے لکچر میں کیا یا سر ولیم میکوروتھ ینگ نے ڈگری یافتہ طالب علموں سے خواہش کی حاصل نہیں ہوتی۔
ہم اس بات کو جیسا کہ اودھ اخبار نے لکھاہے نہایت مفید اور ضروری سمجھتے ہیں کہ ’’اسکول ماسٹروں کو چاہیے کہ وہ اپنے شاگردوں کے نقش ذہن کرتے رہیں کہ وہ اعلی درجہ کا چلن اور شریفانہ اولوالعزمیاں اختیار کریں۔ اور اسی طرح ہمارے کالج کے پروفیسروں کو بھی منجملہ ایسے لوگوں کے ہونا چاہیے جن میں خیالات عالیہ پائے جاتے ہوں۔‘‘ مگر ہماری رائے میں جب تک کہ خود اسی قوم کے چند لوگ اس قوم کی سوسائٹی کے مہذب کرنے پر آمادہ نہ ہوں اور دلی سعی و کوشش نہ کریں، سوسائٹی کی حالت درست نہیں ہو سکتی۔ اور یہی سبب ہے کہ باوجود یہ کہ کئی قرن گورنمنٹ کو ہندوستانیوں کو تعلیم دیتے ہوئے گذرے مگر ان کی سوسائٹی کی حالت اب تک درست نہیں ہوئی۔
نہایت مشکل یہ ہے کہ دنیا میں کسی قوم کی سوسائٹی اور سوشیل حالت ایسی نہیں ہے کہ جس میں ایسے امور بھی شامل نہ ہوں جن کی بنا غلط یا صحیح طور پر مذہبی امور پر مبنی ہونی نہ کہی جاتی ہو۔ پس اگر وہ امور ترقی سوسائٹی کے مانع ہیں اور غلطی سے ان کی بناء مذہبی امور پر کہی جاتی ہے تو جب تک اسی قوم کا کوئی شخص غلطی کو ظاہر نہ کرے اور اس مانع کے رفع کرنے میں کوشش نہ کرے تو وہ رافع نہیں ہو سکتی۔ غیر قوم کے شخص کا اس امر مانع پر متنبہ کرنا گو وہ کیسا ہی سچ کہتا ہو مخالف اثر پیدا کرتا ہے۔ اور خیال ہوتا ہے کہ وہ شخص بہ سبب اختلاف قومی یا مخالفت مذہب کے ایسا کہتا ہے۔ اگر چہ ہم قوم اور ہم مذہب والے پر بھی ہزاروں شخص طرح طرح کے اتّہام لگاتے ہیں اور اس کی بات کی سماعت نہ ہونے پر کوشش کرتے ہیں۔ اور گورنمنٹ تو ایسی کوئی بات جس سے مذہب میں مداخلت کرنے کا شبہ بھی ہو، اختیار نہیں کر سکتی۔ غرض یہ کہ اخلاقی اور شریف النفسی کی تعلیم عمدہ سوسائٹی پر منحصر ہے اور انگریزی گورنمنٹ سوائے تعلیم دینے کے اور کوئی طریقہ اختیار نہیں کر سکتی جس سے ہندوستانیوں میں سوسائٹی کی حالت اچھی ہو اور عمدہ سوسائٹی ان کی بن جاوے۔
دماغی تعلیم جس کاہم نے ابھی اوپر ذکر کیا کچھ شبہ نہیں ہے کہ انسان کو انسان اور اس کی عقلی اور دماغی قوتوں کے کامل اور اس کے اخلاق کو عمدہ بنانے میں بہت کچھ مدد کرتی ہے۔ مگر جب مسئلہ حصول معاش پر نظر کی جاتی ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ یقینی امر ہے کہ محض علمی پیشیوں میں حصول معاش کی ذرا بھی گنجائش باقی نہیں ہے۔ اور اس لیے ان کا اور نیز ہمارے حکام کا اس طرف خیال جاتا ہے کہ حرفت اور فن کی تعلیم کو جسے سینز اور ٹیکنیکل ایجوکیشن سے تعبیر کیا جاتا ہے، زیادہ وسعت دی جاوے۔
ٹیکنیکل ایجوکیشن کے معنی تو ہم آج تک نہیں سمجھے کہ اس سے کیا مراد ہے؟ اگر اس کی مراد حرفوں کی تعلیم سے ہے جیسے لوہاری، نجاری، نور بافی وغیرہ وغیرہ تو اس کی ضرورت تو ہم ہندوستان میں بہت کم پاتے ہیں کیونکہ اس قسم کے تعلیم یافتہ لوگوں کی کمی ہندوستان میں نہیں ہے۔ اگر یورپ کو یا اور کسی ملک کو اس باب میں توفّق ہے تو وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ جو کام ہندوستان میں ہاتھوں سے ہوتا ہے وہ ان ملکوں میں کلوں کے ذریعہ سے ہوتا ہے۔ مگر کلیں قائم کرنے والے وہ لوگ نہیں ہیں جو ان میں کام کرتے ہیں۔ بلکہ کلوں کو قائم کرنے والی ایک جدا جماعت ہے۔ ہندوستان میں اگرچہ کہیں کہیں ایسی جماعتیں قائم ہوئی ہیں، مگر ہندوستان میں عام طور پر ایسی جماعتوں کاقائم ہونا ظاہرا ًبہت دور، اور بعض وجوہ سے اگر نا ممکن نہیں تو مشکل تو ضرور معلوم ہوتا ہے۔
سینز بلا شبہ نہایت عمدہ چیز ہے۔ اور سینز کا جاننے والا آج کل کے زمانے میں قریب قریب ہر حرفت پر پورا پورا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔ اور معاش حاصل کرنے کے لیے نہایت عمدہ ذریعہ اس کے پاس ہوتا ہے۔ جیسا کہ یورپ کے ملکوں میں دیکھا جاتا ہے مگر یورپ کے ملکوں کا قیاس ہندوستان پر نہیں ہو سکتا۔ یورپ میں ہر قسم کے متعدد کارخانے موجود ہیں۔ اوراس لیے یورپ کی یونیورسٹیوں میں سینز کی تعلیم دینا فائدہ سے خالی نہیں۔ کیونکہ ہر قسم کے سینز جاننے والے کے لیے ہر قسم کے کارخانے موجود ہیں جن میں وہ جا سکتا ہے اور اپنی معا ش پیدا کر سکتا ہے۔ مگر ہندوستان میں اس قسم کے کارخانے نہیں ہیں اور نہ ابھی ان کے ہونے کی توقع ہے۔ پس سینز جاننے والا بجز اس کے کہ سینز کا عالم ہوکر اپنے گھر میں بیٹھا رہے اور کوئی ذریعہ معاش کا حاصل نہیں کر سکتا۔ گورنمنٹ ڈاکٹری، انجینئری، نقشہ نویسی وغیرہ کی جو ٹیکنیکل ایجوکیشن یا سینز میں داخل ہیں، بقدر ضرورت اس ملک کے تعلیم دیتی ہے اور اس ذریعہ سے وہ لوگ معاش بھی پیدا کرتے ہیں۔ مگر اس سے زیادہ تعلیم کی نہ ہندوستان کی موجودہ حالت میں گنجائش ہے اور نہ وہ اس تعلیم سے کچھ معاش پیدا کر سکتے ہیں۔
بڑی ضرورت ہندوستان میں اعلی درجہ کی دماغی تعلیم کی اور اخلاقی اور سوشیل حالت کی درستی کی ہے جو ابھی تک نہیں ہوئی یا پورے طور پر نہیں ہوئی۔ اس کے بعد باقی امور لحاظ کے قابل ہیں۔ پس ہم کو مناسب نہیں ہے کہ ہم دفعۃ سب امور کا ہونا چاہیں بلکہ جو کام ہم کو پہلے کرنا ہے اس کو مقدم سمجھیں اور اس کے بعد جو کام کرنے ہیں وہ کریں۔
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |