تغلق آباد کا سنار
اس وقت کے کھنڈر تغلق آباد کا ذکر نہیں ہے، لیکن غیاث الدین تغلق کے عہد کا تغلق آباد، جس میں ساری دہلی کی آبادی سما رہی تھی اور جو آج اس شاہجہاں آباد اور رائے سینہ میں لہر بہر دیکھتے ہیں، یہ سب تغلق آباد میں پائی جاتی تھیں۔ مگر جمنا داس سنار کی بدنصیبی دیکھئے۔ سات پشت کا کاریگر جس کے باپ دادا بادشاہ زادیوں اور بیگموں کے لئے گہنے بناتے تھے اور انعام پاتے تھے، یہ فاقہ کرتا تھا۔ اس کی دکان بیچ جوہری بازار میں تھی۔ آس پاس کے بیٹھنے والے سنار جو بالکل اناڑی تھے، دن رات روپیہ رولتے تھے اور یہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا رہتا تھا۔
دوسرے تیسرے دن اس کے پاس کام آتا تو بس اتنا کہ یہ اور اس کی جورو درگا بائی مشکل سے دو وقت کی جَو کی سوکھی روٹی کھا لیں۔ اور دو تین دن تابڑ توڑ فاقہ کریں۔ اور کپڑے لتے کا نصیب ہونا دشوار تھا۔ درگا بیچاری کے لہنگے میں پیوند، دوپٹہ بور بور، اور انگیا کرتی تو پہننی بھول ہی گئی تھی۔ ننگے گلے، ننگے پیٹ، پرانے دھرانے دوپٹہ سے آگا پیچھا ڈھانک لیتی تھی۔ جمنا داس کی دھوتی اورپگڑی تار تار، گلے میں پھٹا ہوا کرتہ، میلا کچیلا۔ پھر اس پر طرہ یہ کہ بے اولادی۔ پچاس برس کا جمنا داس ہوگیا اور چالیس برس کی درگا۔ ان کے یہاں چوہے کا بچہ بھی نہ ہوا۔
جمنا داس جب رات کو آتا، چوتھے پانچویں دو تین آنے کے پیسے لاتا جو ان دونوں دموں کے لئے بہت ہوتے۔ مگر جیت یہ تھی کہ اناج اور ترکاری اور سب جنس سستی تھی۔ اسی تنگی ترشی میں درگا جی کا پاؤں بھاری ہوا۔ اور ایشور کی کرپا دیکھئے، نویں مہینے لڑکا پیدا ہوا۔ بوڑھے منہ مہانسے اور لوگ چلے تماشے۔ جب درگا پیٹ سے تھی تو پاس پڑوس کی عورتیں چپکے چپکے کہا کرتی تھیں۔ مالک خیر کرے۔ پچیس برس کی عمر تک اگر عورت کے یہاں بال بچہ نہیں ہوتا ہے تو اس کا ہاڑ سے ہاڑ جڑ جاتا ہے۔ جب اس عمر گئے پیٹ رہتا ہے تو عورت کو جننا مصیبت ہوتا ہے۔ یا تو پیٹ میں بچہ مر جاتا ہے یا زچہ سدھار جاتی ہے۔ کیونکہ اس پکی عمر میں تکلیف کی سہار نہیں ہوتی۔ مگر جسے خدا رکھے اسے کون چکھے۔ درگا دیوی پلنگ کو لات مارکر کھڑی ہوگئیں اور بال بھی بیکا نہ ہوا۔ پنڈت جی مہاراج نے بالک کا راس دیکھ کر جنم پترہ بنایا اور گوپال داس نام لکھ کر اور دو ٹکے لے کر تشریف لے گئے۔
یہ بچہ ایسا دلدری ہوا کہ جمنا داس کے گھر کی رہی سہی برکت جاتی رہی۔ مکان ٹوٹ پھوٹ کر کھنڈر ہو گیا اور ا س کے باپ نے پھونس مانگ تانگ کر ایک چھپر ڈال لیا اور اس میں یہ بچہ اور اس کے ماں باپ اپنی زندگی کاٹتے۔ اس مصیبت اور تکلیفوں میں گوپال بارہ برس کا ہوگیا، اور اس کے ماں باپ بوڑھے ہوکر حلوہ بن گئے۔ سرسفید، داڑھی سفید، دانت ٹوٹ گئے۔ پنڈوں پر جھریاں پڑ گئیں، آنکھوں سے کم دکھائی دینے لگا۔ پھر اس پر روٹی کی مار۔ سردی اور گرمی اور خاص کر برسات پرانے چھپر تلے کاٹنی معاذ اللہ۔ درگا کی یہ مصیبت دیکھ کر ایک مسلما ن پڑوسن نے اس سے کہا، یہ پہاڑ جو تغلق آباد سے چکر کھاتا ہوا گوڑ گانوہ کی طرف چلا گیا ہے، اس میں دس میل پر ایک کھوہ ہے۔ اس میں ولی اللہ ایک مسلمان رہتے ہیں۔ جو وہ کہہ دیتے ہیں، وہ ہوجاتا ہے۔
ہزاروں ہندو، ہزاروں مسلمان ان کے پاس جاتے ہیں اور اپنی اپنی مرادیں پاتے ہیں۔ جسے وہ دعا دے دیتے ہیں وہ نہال ہوجاتا ہے۔ نگوڑی تو بھی ان کے پاس جا، اور اپنے گھر والے اور اپنے بچے کو بھی ساتھ لے جا۔ ہاتھ پاؤں جوڑنا اور اپنی رام کہانی انہیں سنانا۔ خدا چاہے تو سب بھرے پُرے پلٹ کر آؤگے۔ پڑوسن کی بات درگا کے جی کو لگ گئی۔ اور اس نے دو چار ہندو عورتوں سے بھی سنا کہ مسلمان فقیر سچ مچ پہنچے ہوئے آدمی ہیں۔ اور کچھ رات رہے بوڑھی سناری اپنے خاوند اور اپنے بچے کو لے کر پتہ پر چل دی۔ تینوں کے تینوں بھوکوں کے مارے کمزور اور بودے ہو رہے تھے۔ ایک ایک قدم انہیں منزل تھا۔ پہاڑیوں پر دوڑنے پھرنے سے پاؤں لہولہان ہوگئے۔ مگر گرتے پڑتے فقیر صاحب کی کھوہ تک پہنچ ہی گئے۔
جو سناتھا، اس سے زیادہ وہاں حاجت مندوں کی بھیڑ لگی ہوئی دیکھی۔ فقیر صاحب پتھر کی چٹان پر ایک بوریا بچھائے بیٹھے تھے اور تعویذ گنڈے دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے، جس کسی کو کہنا سننا ہو وہ جلدی کہہ لے۔ میری اللہ اللہ میں ہرج ہوتا ہے۔ سنار اور سناری فقیر کی نورانی صورت دیکھ کر خوش ہو گئے۔ اور انہوں نے آپس میں کہا، بیشک یہ منہ مانگی مراد دیں گے۔ جب چھیڑ ہو گئی تو فقیر صاحب نے ان سے بھی کہا، بابا جو تمہارا مطلب ہو وہ کہہ ڈالو۔ جمنا داس نے کہا، حضور ہم اپنی بات اکیلے میں کہنی چاہتے ہیں۔
فقیر صاحب نے کہا، تو ظہر کے وقت تک ٹھہرو۔ اس وقت تک یہاں کوئی نہ رہے گا۔ پھر جو تمہارا جی چاہے وہ کہنا۔ یہ کہہ کر فقیر صاحب لوگوں کو تعویذ فلیتہ بانٹنے لگے۔ یہاں تک کہ سب لوگ چلے گئے۔ فقیر صاحب نے ظہر کی نماز ادا کی اور جمنا داس سے کہا، ہوں! بولو۔۔۔ کیا چاہتے ہو۔ جمنا داس اور اس کی بیوی اور اس کا بارہ برس کا لڑکا فقیر صاحب کے قدموں پر گرپڑے اور سب نے مل کر اپنی بیکسی، نہوت کا حال اس طرح عرض کیا کہ فقیر صاحب کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے۔ اور آپ نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور مراقبہ میں مشغول ہوگئے۔ کچھ دیر بعد آنکھیں کھول کر ان سے کہا، اللہ تم تینوں کے حال پر رحم کرے گا۔ کان کھول کر سن لو۔ فقیروں کے بس میں کچھ نہیں ہوتا ہے۔ وہ نہ کسی کو دے سکتے ہیں، نہ کسی سے کچھ چھین سکتے ہیں۔ دینا او رنہ دینا یہ اسی داتا کے گن ہیں۔ جو سنسار کا پالنے والا ہے۔ مجھے تو بس اتنا حکم ملا ہے کہ ان تینوں آدمیوں سے کہہ دو کہ تم تینوں کی ایک ایک دعا قبول ہو سکتی ہے اور وہ بھی آن کی آن میں جو مانگوگے وہ فوراً پاؤگے، مگر دوبارہ دعا کام نہ دے گی۔ اب تم اپنے گھر جاؤ۔ اور سوچ سمجھ کر دھن دولت ہاتھی گھوڑے جو کچھ مانگنا ہو، مانگ لینا۔ اسی وقت مل جائےگا اور تمہارے دلدر پار ہو جائیں گے۔ لو اب سواری بڑھاؤ۔
یہ تینوں فقیر صاحب کے ہاتھ پاؤں چوم کر تغلق آباد کو چل دیے، اور مارے خوشی کے اپنے جامے میں پھولے نہ سماتے تھے اور اپنے جی میں الگ الگ سوچتے چلے جاتے تھے کہ ہمیں خدا سے کیا مانگنا چاہئے۔ بوڑھیا سناری کے دھیان میں یہ بات آئی کہ میرا بوڑھا گھر والا دلی کی سلطنت خدا سے مانگے گا، اور اسے فوراً دلی کی سلطنت مل جائے گی۔ اور پھر اس کے اوپر سیکڑوں بادشاہ زادیاں اور کنواری کنیاں پری زاد سے پری زاد واری اور قربان ہوں گی، اور مجھ کھپٹ بوڑھیا کو جس کے منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت ہے، کبھی بھول کر نہ پوچھےگا، اور راجہ اندر بن جائے گا۔ اس لئے میرے لئے یہ مناسب ہے کہ پہلے اس کا توڑ کرو۔ اور دعا کی برکت سے راج دلاری اور خوبصورت اور کنواری لڑکی بن جاؤں تاکہ جمنا داس بادشاہ بنتے ہی میرے اوپر عاشق ہوجائے۔ اور مجھے اپنی بڑی رانی بنائے۔ اس خیال کے آتے ہی اس نے ہاتھ اٹھاکر دعا کی کہ ایشور! اے پرماتما! تو مجھے چودہ برس کی کنواری کنیا اور ابلہ پری بنا دے کہ جو مجھے دیکھے مجھ پر موہت ہوجائے۔ اور میرا دم بھرنے لگے۔
کامل فقیر کا کہنا سچا تھا۔ دعا کرتے ہی بوڑھی سناری ایک حور بہشتی یا پرستان کی پری بن گئی۔ اور بوڑھے خاوند کو اپنے ناز و انداز دکھانے چلی۔ اتفاق کی بات ادھر سے شاہنشاہ دہلی کا ولی عہد بادشاہ زادہ ہرن کے پیچھے گھوڑا مارے چلا آتا تھا، جو ان کے پاس آن پہنچا۔ اور اس کی درگا دیوی سے آنکھیں چار ہوئیں۔ بادشاہ زادے نے درگا کے پاس گھوڑا لاکر کہا، بیا۔ درگا ہرنی کی طرح چھلانگ مار کر اس کے گھوڑے کے پاس پہنچی۔ بادشاہ زادے نے کہا۔ جان من! گھوڑے کی رکاب میں پاؤں رکھ کر اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے۔ اور نازنین سناری کو اپنے آگے گھوڑے پر بٹھا، گھوڑے کو ایڑ دیتا ہے تو یہ جاوہ جا۔
بوڑھا سنار اور اس کا نادان لونڈا ہکّا بکّاکہ ابھی یہ چھلاوہ کہاں سے آیا، جو درگا کو چھین کر چمپت ہوا۔ بوڑھے سنار نے جورو کی جو یہ بے وفائی دیکھی جل مرا۔ اور اس نے کہا ٹھیر تو جا چڑیل! مجھے چھوڑ کر تو بادشاہ زادے کے ساتھ سیج پر سوئے، یہ نہیں ہوسکتا اور اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ چلا کر کہا اے خدا! اے داتا! بس میری یہی دعا ہے کہ یہ جو درگا بادشاہ زادے کے ساتھ گھوڑے پر چلی جاتی ہے، اس کو تو سورنی بنادے۔
ولی عہد اپنے گھوڑے کو بھگائے چلا جاتا ہے اور ارمان کے مارے اپنی معشوقہ کے مکھڑے کو دیکھتا جاتا تھا۔ جو ایک دفعہ اس نے دیکھا حور نہ پری میرے آگے زرین غاشیہ پر کالی کلوٹی کیچڑ میں لتھڑی لتھڑائی ایک سورنی بیٹھی ہے، اور میں اسے دونوں ہاتھوں سے تھام رہا ہوں، اور اس کے پنڈے کے سخت سخت بال ہاتھوں کو زخمی کئے دیتے ہیں۔ اس تماشے کو دیکھ کر ولی عہد نے گمان کیا کہ اس جنگل میں چھلاوہ رہتا ہے۔ پہلے ہرن بن کر میرے سامنے آیا۔ پھر پری بن گیا۔ اب سورنی بن کر ڈراتا ہے۔ یہ سوچ کر ولی عہد نے فوراً سورنی کو دھکیل کر نیچے گرا دیا اور گھوڑا بھگا کر لاحول پڑھتا ہوا چل دیا۔
درگا بائی سورنی کی جون میں جنگل کے اندر حیران کھڑی تھی۔ اور دن ڈگڈگیوں رہ گیا تھا۔ پہاڑوں پر جو درخت تھے ان کی پھننگ پر زرد مہین دھوپ کچھ باقی تھی، جو اس میں جمنا داس اور گوپال داس سورنی کے پاس پہنچے۔ جمنا داس کا جی جل رہا تھا۔ وہ غصہ میں بھرا ہوا تھا۔ اس نے آتے ہی دونوں ہاتھ سے ایک لٹھ سورنی کی کمر پر ٹکا دیا۔ اور وہ قیں قیں کر کے چیخی اور بوڑھے کے پاؤں پر لوٹنے لگی۔
جب جمنا داس نے مارتے مارتے اس کا کچومر نکال لیاتو گوپال داس سے کہا، یہ تیری میا ہے، جس کے لئے تو پھڑکا جاتا تھا۔ اور یہ جوان مردوے کے ساتھ بھاگی تھی۔ اب ایک دعا تیری اور ہے۔ وہ تو اپنی ماں کے کام میں لا اور اسے آدمی بنا۔ یہ سن کر سورنی گوپال کے پاؤں پر آپڑی۔ اور اس کے صدقے واری ہونے لگی۔ جس کے یہ معنی تھے کہ میرے لئے دعا کر اور میں جیسی کہ تیسی سناری بن جاؤں۔ گوپال نے اپنی ماں پر ترس کھاکر دعا کی اور وہ بوڑھی سناری بن گئی۔
رات کے بارہ بجے یہ تینوں اپنے جھونپڑے میں پہنچے۔ صبح کو مسلمان پڑوسن نے درگا سے پوچھا کہ تمہیں فقیر صاحب کے یہاں سے کیا ملا۔ درگا نے اپنی ساری کہانی اسے سنائی او رکہا، ’’بہن تم نے جو کہا تھا، وہ سب سچ نکلا۔ مگر پوت گئے دکھن اور وہی کرم کے لچھن۔ خدا کی بے مرضی نہ فقیر کسی کو کچھ دے سکتا ہے نہ بادشاہ، مگر لوگوں کو خبط ہوتا ہے کہ میں اور میرے سارا کنبہ کایا پلٹ ہوجائے۔ اور ہم دن رات جشن جمشیدی کیا کریں۔ مگر وہ منھ دھو رکھیں۔‘‘
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |