تقدیر شمع جلوۂ جانانہ بن گیا
Appearance
تقدیر شمع جلوۂ جانانہ بن گیا
شعلہ اٹھا جو اس سے تو پردا نہ بن گیا
جو حال دل تھا کیف میں تاثیر درد تھا
وہ کہتے کہتے شوق کا افسانہ بن گیا
جنت کی آرزو سے ہے جنت کا کل وجود
ویرانہ کہہ دیا جسے ویرانہ بن گیا
یک قطرہ دل تھا مست کا پیمانۂ نصیب
ساقی نے کی نگاہ تو مے خانہ بن گیا
موقع شناس حسن محبت کے باب میں
اپنا تھا اور حشر میں بیگانہ بن گیا
اس کی طلب میں جب نہ رہا اس کا کچھ لحاظ
انداز بے قرار گدایانہ بن گیا
یوں اپنے در سے ٹال دیا اس کے ناز نے
انداز لطف خاص کریمانہ بن گیا
کیفیؔ حرم کے در پہ تھا جو کچھ وہ فیض تھا
ہاں بت کدے میں سجدۂ شکرانہ بن گیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |