تلخی کش نومیدئ دیدار بہت ہیں
Appearance
تلخی کش نومیدئ دیدار بہت ہیں
اس نرگس بیمار کے بیمار بہت ہیں
عالم پہ ہے چھایا ہوا اک یاس کا عالم
یعنی کہ تمنا کے گرفتار بہت ہیں
اک وصل کی تدبیر ہے اک ہجر میں جینا
جو کام کہ کرنے ہیں وہ دشوار بہت ہیں
وہ تیرا خریدار قدیم آج کہاں ہے
یہ سچ ہے کہ اب تیرے خریدار بہت ہیں
محنت ہو مصیبت ہو ستم ہو تو مزا ہے
ملنا ترا آساں ہے طلب گار بہت ہیں
عشاق کی پرواہ نہیں خود تجھ کو وگرنہ
جی تجھ پہ فدا کرنے کو تیار بہت ہیں
وحشتؔ سخن و لطف سخن اور ہی شے ہے
دیوان میں یاروں کے تو اشعار بہت ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |