تلوار تری رواں بہت ہے
Appearance
تلوار تری رواں بہت ہے
تھوڑا بھی تو امتحاں بہت ہے
کچھ آہ کے حوصلہ نکلتے
نیچا مگر آسماں بہت ہے
دامن پہ ترے لگی رہی خاک
اتنا ہی مرا نشاں بہت ہے
دل تنگ سہی پر اے تمنا
مر رہنے کو یہ مکاں بہت ہے
اک کوہ گراں ہے عشق لیکن
اس کو دل ناتواں بہت ہے
الفت میں نہیں ہے صبر نایاب
یہ چیز مگر گراں بہت ہے
باطن کی خبر خدا کو ہے داغؔ
ظاہر میں وہ مہرباں بہت ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |