تمہاری چشم نے مجھ سا نہ پایا
Appearance
تمہاری چشم نے مجھ سا نہ پایا
دیا سرمہ بھی اور چپکا نہ پایا
خدا کو کیا کہوں پایا نہ پایا
کہ وصل بے خودی اصلا نہ پایا
بہت صورت کو میں ترسا نہ پایا
نہ پایا وہ بہت ترسا نہ پایا
سحاب تر نے بحر خشک سب نے
ہمارا دیدۂ تر سا نہ پایا
چلے ہم دل جلے اس بزم سے یار
جلے ہاتھوں سے اک بیڑا نہ پایا
سدا سورج نے دن بھر اس کو ڈھونڈا
کبھی وہ چاند کا ٹکڑا نہ پایا
بہت اچھا ہوا اچھی ہے قسمت
مریض عشق کو اچھا نہ پایا
جو اس گردن کا نقشہ ہے وہ ہم نے
صراحی دار موتی کا نہ پایا
در اشک مسلسل اے شہ عشق
تری دولت سے یہ سہرا نہ پایا
بہت سیدھا بناؤں گا فلک کو
کہ اس کج کو کبھی سیدھا نہ پایا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |