تمہیں ایسا بے رحم جانا نہ تھا
Appearance
تمہیں ایسا بے رحم جانا نہ تھا
غرض کیا کہیں دل لگانا نہ تھا
اگر اس گلی سے نکلتے تو پھر
دو عالم میں اپنا ٹھکانا نہ تھا
لیا امتحان وفا ہی میں جی
ہمیں یاں تلک آزمانا نہ تھا
وہ تھا کون سا تیرا تیر ستم
کہ میں آہ اس کا نشانا نہ تھا
کیا کس کی آنکھوں نے راسخؔ پہ سحر
وہ آگے تو ایسا دوانا نہ تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |