Jump to content

تم سے وابستہ ہے میری موت میری زندگی

From Wikisource
تم سے وابستہ ہے میری موت میری زندگی
by مخمور دہلوی
323876تم سے وابستہ ہے میری موت میری زندگیمخمور دہلوی

تم سے وابستہ ہے میری موت میری زندگی
جسم سے اپنے کبھی سایہ جدا ہوتا نہیں

اس طرح فریاد کرنے کو کلیجہ چاہئے
اب کوئی گلشن میں میرا ہم نوا ہوتا نہیں

وہ محبت آفریں دیتا ہے حسب ظرف عشق
پھر کسی سے بھی طلب گار وفا ہوتا نہیں

اک تخیل ہے کہ جس میں محو ہے میرا دماغ
اک تصور یہ جو آنکھوں سے جدا ہوتا نہیں

سعیٔ فہم ذات باری اور یہ محدود عقل
جس کا حاصل کچھ بھی حیرت کے سوا ہوتا نہیں

اشرف المخلوق کہتے ہیں اسی مجبور کو
جس کا کوئی کام بے دست دعا ہوتا نہیں

جتنے ارماں دل میں تھے مخمورؔ سب موجود ہیں
ایک بھی تو اپنے مرکز سے جدا ہوتا نہیں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.