تم وفا کا عوض جفا سمجھے
تم وفا کا عوض جفا سمجھے
اے بتو تم سے بس خدا سمجھے
پان کھا کر جو آئے مقتل میں
کیا شہیدوں کا خون بہا سمجھے
سر قلم کرنے کا تھا خط میں جو حال
اس کا مضمون ہم جدا سمجھے
کب وہ تلووں سے آنکھیں ملنے دے
جو کہ مژگاں کو خار پا سمجھے
ہو گیا جب قلم ہمارا سر
اپنی قسمت کا تب لکھا سمجھے
دوڑے کیا ہو کے خوش سوئے مقتل
اس کے ہم گھر کا راستہ سمجھے
کسی صورت سے ہم کو آنے دے
کاش دروازے کا گدا سمجھے
یاد دنداں میں جو بہا آنسو
اس کو ہم در بے بہا سمجھے
چاندنی پر وہ پھر رکھے نہ قدم
ہم فقیروں کا بوریا سمجھے
تیری ابرو کو جو ہلال کہا
ماہ نو سے بھی کچھ سوا سمجھے
مروں تو وہ جواب نامہ لکھے
خط نہ آنے کا مدعا سمجھے
ہاتھ اٹھا کر لگا جو کوسنے وہ
واہ رے ہم اسے دعا سمجھے
جو ہے بیگانہ آشنا ہے وہ
ہم جو کہتے ہیں کوئی کیا سمجھے
ہم کو نظروں سے پیستی ہیں آپ
چشم بد دور توتیا سمجھے
جب سے اوس کوچے میں قدم رکھا
کیمیا کو بھی خاک پا سمجھے
تجھ کو او نوجواں کہا بے مثل
آج معنی لا فتا سمجھے
ہم نے جب دیکھی چاندنی چھٹکی
تیری اتری ہوئی قبا سمجھے
کاسۂ ماہ جب سے دیکھ لیا
تب سے گردوں کو ہم گدا سمجھے
اپنے فہمید پوچھ مت گویاؔ
کچھ نہ سمجھے یہ بارہا سمجھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |