تم گرم ملے ہم سے نہ سرما کے دنوں میں
Appearance
تم گرم ملے ہم سے نہ سرما کے دنوں میں
پیش آئے بہ گرمی بھی تو گرما کے دنوں میں
جب آئی خزاں ہم کو کہا "باغ چلو ہو"
پوچھا نہ کبھی سیر و تماشا کے دنوں میں
نے غرفے سے جھانکا نہ کبھی بام پر آئے
پنہاں رہے تم حسن دل آرا کے دنوں میں
جی ہی میں رکھی اپنے میاں جی سے جو اپجی
کچھ ہم نے کہا تم سے تمنا کے دنوں میں
لکھ لکھ کے اسے یاروں نے دیوان بنایا
کچھ کچھ جو بکا کرتے تھے سودا کے دنوں میں
دل اپنا الجھتا تھا تبھی جن دنوں پیارے
تھی زلف تری طرۂ لیلیٰ کے دنوں میں
مفلس ہوئے اے مصحفیؔ افسوس کہ ہم نے
پیدا نہ کیا یار کو پیدا کے دنوں میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |