تن پر اس کے سیم فدا اور منہ پر مہ دیوانہ ہے
Appearance
تن پر اس کے سیم فدا اور منہ پر مہ دیوانہ ہے
سر سے لے کر پاؤں تلک اک موتی کا سا دانہ ہے
ناز نیا انداز نرالا چتون آفت چال غضب
سینہ ابھرا صاف ستم اور چھب کا قہر یگانہ ہے
بانکی سج دھج آن انوٹھی بھولی صورت شوخ مزاج
نظروں میں کھل کھیل لگاوٹ آنکھوں میں شرمانا ہے
تن بھی کچھ گدرایا ہے اور قد بھی بڑھتا آتا ہے
کچھ کچھ حسن تو آیا ہے اور کچھ کچھ اور بھی آنا ہے
جب ایسا حسن قیامت ہو بیتاب نہ ہو دل کیونکہ نظیرؔ
جان پر اپنی کھلیں گے اک روز یہ ہم نے جانا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |