تو بے نقاب ہے اے مہ یہ ہیں شراب کے دن
تو بے نقاب ہے اے مہ یہ ہیں شراب کے دن
کہ ماہتاب کی راتیں ہیں آفتاب کے دن
جوان تو بھی ہے اپنے بھی ہیں شباب کے دن
بلا حساب دے بوسے نہیں حساب کے دن
ہوا سفید تری انتظار میں آخر
عجب طرح سے پھرے دیدۂ پر آب کے دن
ترے لبوں سے ہے روکش عجب طرح کے ہیں مست
لگے ہیں دن اسے کیوں کر پھریں شراب کے دن
قرار یہ تھا کہ اتوار کے دن آؤں گا
کہا تھا میں نے گئے میرے اضطراب کے دن
ہوا دو چند الم آہ روز یک شنبہ
وہ آفتاب مرا آیا آفتاب کے دن
وہ زلف مجھ پہ ہے بے وجہ رات دن برہم
کسی طرح سے نہ بڑھتی نہیں عتاب کے دن
جگر سے شعلے نکلتے ہیں چشم سے آنسو
اس آب و تاب سے کٹتے پیچ و تاب کے دن
نہ جاؤ شیخ جی آؤ قریب ہے ہولی
خفا نہ ہو کہ چلے آتے ہیں خطاب کے دن
پلائی مے رمضاں میں نہ مجھ کو اے ساقی
بڑے عذاب سے کٹتے ہیں یہ ثواب کے دن
عذاب ہجر بھی دوزخ سے کم نہیں احساںؔ
الٰہی مجھ کو نہ دکھلائیو عذاب کے دن
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |