تو مجھے کس کے بنانے کو مٹا بیٹھا ہے
Appearance
تو مجھے کس کے بنانے کو مٹا بیٹھا ہے
میں کوئی غم تو نہیں تھا جسے کھا بیٹھا ہے
بات کچھ خاک نہیں تھی جو اڑائی تو نے
تیر کچھ عیب نہیں تھا جو لگا بیٹھا ہے
میل کچھ کھیل نہیں تھا جو بگاڑا تو نے
ربط کچھ رسم نہیں تھا جو گھٹا بیٹھا ہے
آنکھ کچھ بات نہیں تھی جو جھکائی تو نے
رخ کوئی راز نہیں تھا جو چھپا بیٹھا ہے
نام ارمان نہیں تھا جو نکالا تو نے
عشق افواہ نہیں تھا جو اڑا بیٹھا ہے
لاگ کچھ آگ نہیں تھی جو لگا دی تو نے
دل کوئی گھر تو نہیں تھا جو جلا بیٹھا ہے
رسم کاوش تو نہیں تھی جو مٹا دی تو نے
ہاتھ پردہ تو نہیں تھا جو اٹھا بیٹھا ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |